275

فکر فردا۔۔۔۔لوٹکو ہ کی سیاست !حقائق اور مفروضے۔۔۔کریم اللہ

ان دنوں سوشل میڈیاپر لوٹکوہ بالخصوص سابق ایم پی اے اور صوبائی وزیر سلیم خان کی سیاست پر تبصرے جاری ہے ۔ بعض لوگوں کے نزدیک لوٹکوہ کے عوام تاریخی طور پر علاقہ واریت اور مذہب کے نام پر ووٹ کاسٹ کرتے آرہے ہیں اور ان کے ہاں نظریہ ، پارٹی وابستگی اور کارکردگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ بس چند سیاست دان مسلک وعلاقہ واریت کے نام پر پوری عوام کو ہانکنے میں مصروف ہے ۔ چترال کے مقامی اخبارات میں ایک مضمون بہ عنوان “وادی لوٹکوہ کا سیاسی صورتحال ” ان دنوں زیر بحث ہے ۔ مجوزہ مضمون پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف جانے یا انجانے میں غلط بیانی کی ہے ، چونکہ اس مضمون سے فرقہ ورانہ تعصب اورعلاقہ واریت کی بو آرہی ہے اسی لئے ہم نے تاریخی حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ مسٹر سلیم خان صاحب کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کامیابی میں وادی لوٹکوہ سے زیادہ ارندو، دروش ،چترال اور کوہ کا اہم اور کلیدی کردار رہا ہے ۔ 2008ء کے عام انتخابات میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سلیم خان کو صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ دی تولوٹکوہ سے5581، چترال سے 5178 اور دروش /ارندو سے 2231ووٹ لئے پھر 2013ء کے عام انتخابات میں وادی لوٹکوہ سے کل 16ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سلیم خان کو 5ہزار 8سو 51ووٹ ملے ۔ جبکہ شہزادہ امان الرحمن کو 4ہزاراور شہزادہ خالد پرویز کو ساڑھے 3ہزار سے زائد ووٹ پڑے ۔ کریم آباد سوسوم سے آزاد امیدوار سرتاج احمد خان کواکثریت ملی کریم آباد کے بعض پولنگ اسٹیشن سے جماعت اسلامی کے حق میں بھی بھاری ووٹ پڑے ۔اس وقت محترم مضمون نگار شہزادہ کیمپ میں شامل ہوکر دونوں بھائیوں( شہزادہ افتخار الدین اورخالد پرویز )کا انتخابی مہم چلارہے تھے ۔اوراب سلیم خان پر یہ الزامات عائد کررہے ہیں کہ ”موصوف لوٹکوہ خصوصا ًکریم آباد کےعوام کو جذباتی کرکے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے” ۔ آگے جاکر لکھا ہے کہ ” موصوف روزاول سے لٹکوہ میں خدمت کے بجائے ہمدردی ،مسلکی اورعلاقائی طور پر بلیک میل کرکے ووٹ حاصل کررہا تھا”۔ اگر لوٹکوہ کے عوام مسلک اورعلاقہ واریت کے نام پر اتنے ہی بلیک میل ہوئے تھے تو2008ء کے انتخابات میں انہوں نے یکطرفہ طو رپر سلیم خان کو ووٹ کیوں نہیں دیا ؟۔اور پھر 2013ء کےعام انتخابات میں وادی لوٹکوہ میں کاسٹ ہونے والے 16ہزار ووٹوں میں سے سلیم خان کو 5 ہزار آٹھ سو ووٹ ملے ۔ جبکہ 10 ہزار ووٹ سلیم خان کے خلاف استعمال ہوئے ۔ یعنی مسٹر سلیم خان صاحب کو لوٹکوہ سے کل ووٹوں کا محض37فیصد ملا جبکہ 63فیصد ووٹ ان کے خلاف گئے ۔پھر بھی علاقہ واریت اور مسلکی بلیک میلنگ کہنا محض سیاسی پروپیگنڈہ اوررائےعامہ کو گمراہ کرنے کےعلاوہ اور کچھ نہیں۔ایک اور بات یہ کہا گیا کہ سلیم خان نے اپنے حالیہ دورہ کریم آباد کے دوران اعلان کیا کہ اسرار الدین صبور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بننے کی صورت میں وہ ان کے حق میں دستبردار ہونگے۔اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کیونکہ اسرار صبور اورسلیم خان دونوں علیحدہ جماعتوں کی نمائندگی کررہےہیں دونوں کے اپنے اپنے ووٹ بینک ہے اور دونوں اپنی ووٹ بینک اور ورکرز کو لے کر سیاست کررہے ہیں۔ نہ ہی اس بیان کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق ہوئی اس بیان کی سلیم خان نے خود بھی تردید کی اور کہا کہ میرا اسرار صبور کے مقابلے میں نہ آنے کے بیانات مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے۔حقیقت یوں ہے پی پی پی نےابھی تک ٹکٹوں کافیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی پی ٹی آئی کی جانب سے امیدوار وں کا فیصلہ ہوا ہے ۔ ایسی صورتحال میں چترال کے 21یونین کونسلوں کو چھوڑ کر لوٹکوہ کے تین یونین کونسلوں پر انتخابی سیاست کا فیصلہ کرنا یا اگلےانتخابات کا تجزیہ کرنا محض ہوامیں تیرچلانےکے اورکچھ نہیں۔ اگلے قسط میں اسماعیلی اکثریتی علاقوں کی سیاست پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں