217

فکر فردا ….اسماعیلی اکثریتی علاقوں کی سیاست!حقائق اور مفروضے۔۔۔کریم اللہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسماعیلی کمیونٹی  ایک ہزار برس سے چترال میں رہائش پزیر ہے۔ اس کمیونٹی کی اکثریت اسی مٹی ہی کی پیداوار (بومکی ) لوگوں کی ہیں ۔ لیکن چترال کی تاریخ میں کئی مرتبہ ریاستی حکمرانوں کی جانب سے اور بعض اوقات اکثریتی کمیونٹی کے ایک مخصوص طبقے کی جانب سے اسماعیلی کمیونٹی کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔ میں تاریخی تلخیوں کو دوبارہ کھودنا نہیں چاہتا البتہ یہ حقیقت ہے کہ آج چترال کی اسماعیلی کمیونٹی تاریخ کے انتہائی حساس دور میں جی رہے ہیں کم وبیش اس کمیونٹی کا ہر فرد خوف اور ڈر کے عالم میں زندگی گزار رہےہیں۔اب یہ اکثریتی سنی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسماعیلی کمیونٹی میں موجود ڈراورخوف کو کم کرنے کے لئے کیا حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے چند واقعات اوراکثریتی کمیونٹی کے ردعمل کے بعد بہرحال اسماعیلی کمیونٹی مستقلا خوف وہراس کے عالم میں ہیں ۔ اسماعیلی کمیونٹی کے متعلق ایک عمومی خیال یہ ہے کہ وہ ہر دور میں مسلکی تعصبات کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے آئے ہیں ۔ لیکن چترال کی انتخابی سیاست ان مفروضات کی نفی کرتی ہیں ۔یہ بھی سچ ہے کہ وادی لوٹکوہ ،یارخون اورلاسپور میں شہزادہ محی الدین کا بھاری بھر کم ووٹ بینک تھے لیکن انہی وادیوں سے کئی برسوں تک پی پی پی کے جیالے مسلک وعلاقہ واریت، ذات پات اور رنگ ونسل سے ماوراء ہو کر پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کو ووٹ دیتے آئے ہیں ۔گو کہ اسماعیلی اکثریتی علاقوں میں مذہبی جماعتوں کو زیادہ پزیرائی نہیں ملی اس کی اصل وجہ بھی ان جماعتوں کو ان وادیوں کی جانب توجہ نہ دینا ہے۔اس کالم میں اسماعیلی کمیونٹی کی جانب سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدواروں کو پڑنے والی ووٹوں کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتاہوں ۔سن 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے 12ناظمین کامیاب ہوگئے جن کی اکثریت اسماعیلی کمیونٹی کے تھے ۔ ان ناظمین نے پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اتحاد قائم کیا اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والےاس وقت کے یوسی نائب ناظم حاجی مغفرت شاہ کو سامنے لاکر ان کو ووٹ دیا اور شہزادہ محی الدین جیسے قد آور سیاست دان کو شکست سے دوچار کیا ۔ 2008ء کے انتخابات میں یارخون ،لاسپور اور بیار کے اسماعیلی کمیونٹی نے مولانا جہانگیر کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے گوکہ ان ووٹوں کا تناسب کم تھا لیکن پھر بھی اسماعیلیوں نے مولانا صاحب کو ووٹ دیا تھا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اپر چترال کے اسماعیلیوں کی بڑی تعداد نے پی پی پی کے اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور جانی مانی مذہبی شخصیت سید سردار حسین کے مقابلے میں اے پی ایم ایل کے حاجی غلام محمد، پی ٹی آئی کے حاجی رحمت غازی ،آزاد امیدوار شہزادہ سکندرالملک اور پی ایم ایل این کے امیدوار سعید احمد خان کو ووٹ دئیے۔ موخرالذکر چاروں افراد کا تعلق سنی کمیونٹی سے تھا ۔اسی طرح 2013ء ہی کے انتخابات میں لٹکوہ کے تین یونین کونسلز میں سلیم خان کو 5ہزار 8سو ووٹ ملے شہزادہ امان الرحمن کو ساڑھے 4ہزار،شہزادہ خالد پرویز کو 38سو،عبدالوالی خان،سرتاج احمد خان اورحاجی سلطان کو بھی کافی ووٹ ملے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ لٹکوہ میں کاسٹ ہونے والے 16ہزار ووٹوں میں سے سلیم خان کو 37فیصد یعنی صرف 5ہزار 8سو ووٹ ملے جبکہ مخالف امیدواروں کو 63فیصد یعنی 10 ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے ۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد پی پی پی کے دونوں اسماعیلی ممبران ضلع کونسل غلام مصطفی اور شیر عزیز بیگ نے حاجی مغفرت شاہ کو ووٹ دیا تھا جبکہ پی پی پی ہی کے اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے واحد ممبر تحصیل کونسلر نے بھی جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار تحصیل ناظم مولانا محمد یوسف کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ گرم چشمہ یوسی سے محمد حسین کی کامیابی، چرون یوسی سے حاجی رحمت غازی ، یارخون یوسی سے استاد محمد ولی کی کامیابی، یوسی مستوج سے محسن حیات کی کامیابی اور بہت سارے ویلج کونسلز کے ناظمین،نائب ناظمین اوردوسرے ممبران کی کامیابی اس بات کا غماز ہے کہ اسماعیلی کمیونٹی پارٹی وابستگی اور کارکردگی کی بنیادپر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں نہ کہ مسلکی تعصبات کی بنیاد پر ۔ اسی لئے سنی اکثریتی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ سیاسی معاملے کو مسلکی تعصبات کی بجائے زمینی حقائق اور کارکردگی کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کریں اور اس اہم موقع پر اسماعیلی کمیونٹی میں جو خوف وہراس کے گہرے بادل منڈلا رہےہیں ان کو کم کرنا اہل سنت کے بھائیوں بالخصوص مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں