378

نوازلیگ نَیب کے نشانے پر ۔۔۔۔۔۔ (پروفیسررفعت مظہر)

نوازلیگ کے قائد میاں نوازشریف کو خلائی مخلوق صاف نظر آرہی ہے جبکہ اُن کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ اُنہیں کسی خلائی مخلوق کا علم نہیں البتہ جنّات ضرور ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بات تو ایک ہی ہے۔ خلائی مخلوق نظر آتی ہے نہ جنّات لیکن یہ بہرحال طے کہ موجودہ عام انتخابات میں کہیں نہ کہیں خلائی مخلوق کا کردار ضرور ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں،خلائی مخلوق کا وجود واضح ہوتا جا رہا ہے۔ نوازلیگ کے الیکٹیبلز کی پکڑ دھکڑ میں کہیں نہ کہیں خلائی مخلوق کا کردار ضرور ہے۔ چودھری نثار علی خاں کے مقابلے میں نوازلیگ کے مضبوط اُمیدوار راجہ قمرالاسلام کی گرفتاری بذریعہ نیب اِسی کا شاخسانہ نظر آتاہے۔ محض 2 ہفتے قبل نیب نے قمرالاسلام کے بارے میں الیکشن کمیشن کو این او سی جاری کیا جس کے بعد ہی NA-59 اور PP-10 سے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوئے لیکن الیکشن سے محض 30 دن قبل اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ راجہ قمرالاسلام کا این او سی جاری کرتے ہوئے کیا نیب سوئی ہوئی تھی؟۔ اگر تب وہ صادق وامین تھے تو اب یکایک وہ کرپٹ کیسے ہوگئے جبکہ اُنہیں تفتیش کے لیے کسی کمیٹی کے سامنے بلایا گیا، نہ اُن پر کرپشن کا کوئی الزام۔ وہ تو لاہور میں نوازلیگ سے ٹکٹ وصولی کا فارم لینے آئے تھے کہ دَھر لیے گئے البتہ یہ ضرور کہ اُنہوں نے محض ایک روز پہلے چودھری نثار علی خاں پر کھُل کر تنقید کی تھی۔ نیب کے وکیل کہتے ہیں کہ قمرالاسلام نے بَدنیتی سے مالی تخمینہ بڑھا کر ظاہر کیاجبکہ قمرالاسلام کہتے ہیں کہ اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ 111 کروڑ کی بولی 98 کروڑ پر لائے۔ قمرالاسلام کے بھائی کہتے ہیں کہ زعیم قادری کی طرح اُن کے بھائی کو بھی نوازلیگ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا لیکن جب اُنہوں نے انکار کیا تو نیب نے گرفتار کر لیا۔ راجہ قمرالاسلام اپنے حلقۂ انتخاب میں انتہائی مقبول ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں اُن کی لیڈ 41 ہزار تھی جو پاکستان میں ایک ریکارڈ ہے۔ کہے دیتے ہیں کہ جیل میں بیٹھا قمرالاسلام انتخابی سائنس کی رو سے آزاد قمرالاسلام سے کہیں زیادہ خطرناک ہوچکا۔
ایک ٹی وی پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ نے رانا ثناء اللہ سے سوال کیا کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال تو پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کا متفقہ انتخاب تھا اور اُس وقت اُس کی ایمانداری کے قصیدے بھی بہت پڑھے گئے، اب قمرالاسلام کی گرفتاری پر احتجاج کیوں۔ تب رانا ثناء اللہ کے گول مول جواب سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا بطور چیئرمین نیب انتخاب بھی دراصل خلائی مخلوق کا ہی کارنامہ تھا۔ ہم بھی حیران تھے کہ چیئرمین نیب کے انتخاب پر پیپلزپارٹی اور نوازلیگ ’’فَٹافَٹ‘‘ متفق کیسے ہوگئی۔ اب یہ عقدہ بھی وا ہوا کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘۔ یوں تو میاں شہباز شریف بھی کہتے ہیں ، رانا ثناء اللہ اور شاہ زیب خانزادہ بھی کہ اُنہیں نہیں پتہ کہ خلائی مخلوق کون ہے لیکن سچ یہی کہ نہ صرف ہم بلکہ پوری قوم خوب جانتی ہے کہ خائی مخلوق کا استعارہ کِس کے لیے باندھا گیا ہے لیکن اُس کی دہشت ہی اتنی ہے کہ براہِ راست نام لیتے ہوئے زبانوں پر لکنت طاری ہوتی ہے۔
نیب کے تمام اقدامات قبول، کرپشن کے مگرمچھوں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی ہر کوشش وکاوش مستحسن لیکن ٹائمنگ غلط، بالکل غلط۔ لنگڑی لولی جمہوریت کا تواتر سے تیسرا دَور شروع ہونے کو ہے لیکن نیب انتخابات کو سبوتاژ کرنے یا کم از کم انتہائی متنازع بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے۔ تمامتر دباؤ کے باوجود قومی وبین الاقوامی سرویز میں نوازلیگ اب بھی سب سے آگے۔ اب اِس مقبولیت کو ختم یا کم کرنے کے لیے نیب کا ڈنڈا استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام انتخابات سے محض 4 ہفتے قبل چیئرمین نیب کو اچانک خواب آیا کہ میاں شہباز شریف کی حکومت انتہائی کرپٹ ہے چنانچہ اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ پنجاب حکومت کے میگا کرپشن کیسز میں عنقریب ریفرنسز دائر کیے جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب کی تشکیل کردہ 56 سرکاری کمپنیوں میں سے 50 کمپنیوں میں اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے۔ صاف پانی کمپنی میں کنسلٹنسی کے نام پر اربوں روپے صَرف کیے گئے۔ بجا ! مگرسوال یہ ہے کہ انتخابات سے قبل جبکہ ابھی تک کوئی ریفرنس بھی دائر نہیں کیا گیا، چیئرمین نیب کو آخر ایسی کیا جلدی تھی کہ اُنہوں نے ’’قبل اَزمرگ واویلا‘‘ کے مصداق شور مچانا شروع کر دیا۔جہاں تک ہم جانتے ہیں نیب کا یہ طریقۂ کار نہیں کہ ریفرنس دائر کرنے سے قبل ہی کسی کی کرپشن پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی جائے۔ حیرت ہے کہ تصدیق کی یہ مہر نہ صرف اُس شخص کی طرف سے لگائی گئی جو خود چیئرمین نیب ہے بلکہ بلاامتیاز شفاف احتساب پر یقین رکھنے کا دعویدار بھی۔
اب نوازلیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو نیب نے 5 جولائی کو طلب بھی کر لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیب کے یہ اقدام انتخابات 2018ء کے لیے سُمِ قاتل ہیں کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا گھراؤ کیے جانے سے انتخابات کی شفافیت انتہائی مخدوش ہو جائے گی اور ایسے انتخاب پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گاجس کا نتیجہ سوائے افراتفری اور انارکی کے بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ آج ہر غیرجانبدار تجزیہ نگار یہی کہہ رہا ہے کہ نیب کے یہ اقدام انتخابی نتائج کی شفافیت پر اثرانداز ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ نیب اپنا کام چھوڑ کر بیٹھ رہے لیکن یہ استدعا ضرور کہ جہاں نیب نے اتنا صبر کیا، وہاں ایک ماہ اور سہی کیونکہ اب تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نیب کے سارے اقدام نوازلیگ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے اُٹھائے جا رہے ہیں۔ جب تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے اکھاڑے میں اتر چکی ہیں، عین اُس موقعے پر صاف پانی سکینڈل میں میاں شہباز شریف، اُن کے داماد علی عمران اور بیٹے حمزہ شہباز کو طلب کیا جانا شکوک وشبہات کو مہمیز دے رہا ہے۔
محترم چیئرمین نیب سے دست بستہ عرض ہے کہ پاکستان اِسی قسم کے حالات کی بنا پر اپنے ایک بازو سے محروم ہو چکا۔ وہ ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز کے اندرونی وبیرونی حالات انتہائی مخدوش ہیں،ہماری سرحدوں پر دشمن دستک دے رہا ہے، سی پیک منصوبہ بھاررت کو قبول ہے نہ امریکہ کو، اُن کی ریشہ دوانیاں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کے نِت نئے منصوبے تیار ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں پہلے ہی جوتم پیزار ہیں۔ اِس افراتفری کے عالم میں نیب کے اقدامات ’’شَر‘‘ کو ہوا دیتے نظر آ رہے ہیں جو کسی بھی سانحے کو جنم دے سکتے ہیں۔ ہم تو یہ استدعا ہی کر سکتے ہیں کہ محترم چیئرمین نیب ایسے (خاکم بَدہن) کسی سانحے کا حصّہ نہ بنیں تاکہ تاریخ اُنہیں ایک دیانتدار چیئرمین نیب کے طور پر یاد رکھے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آزاد ہیں اور بلاتفریق احتساب پر یقین رکھتے ہیں۔ اب جبکہ اللہ تعالےٰ نے اُنہیں طاقت دی ہے تو وہ اپنے اِس دعوے کو ثابت بھی کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں