344

بیٹرئل آف انڈیا۔۔۔۔۔۔نغمہ حبیب

بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی’’ ر ۱‘‘ 1969 میں قائم کی اور اس کے ساتھ ہی اسے یہ ڈیوٹی دی کہ تمہارا سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان ہے اس کے خلاف لگ جاؤ تمہارے لیے بھارت کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں چاہے اسی بھارت کے دارلحکومت دہلی میں لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر سوئیں ،کوڑے کے ڈھیروں سے چن چن کر کھائیں، ان کے گھروں میں لٹرین نہ ہوں ،ان کے لیے دوسری بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں ،اس کے بے شمار شہر دنیا کے گندے ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوں لیکن بھارت کی حکومت اور خفیہ ایجنسی کے ایجنڈے پر سب سے پہلے پاکستان کے خلاف سازش ہو۔’’ را ‘‘ تب سے اب تک یہ کام بڑی تندہی سے کر رہا ہے اُس نے بنگلہ دیش بنانے کے بعد بھی اپنا مشن نہ چھوڑا اور پاکستان کے خلاف مزید منصوبے بنانے میں مصروف ہوگیا۔ ایسا ہی ایک منصوبہ اُس نے 2008 میں بنایا اور اس ڈرامے کو ممبئی میں سٹیج کیا اور پھر ڈرامے کے اگلے حصے کے طور پر پوری دنیا میں خوب واویلا کیا، پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جو اس ڈرامے کا اصل مقصد تھا، سارا الزام اس کے سردھر دیا۔ بھارت کے اندر یا باہر اس کے خلاف جو بھی کاروائی یا منصوبہ بندی ہو اُس کی ایک ہی رٹ ہے اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے اور جواباََ وہ آزادی سے لے کر اب تک مسلسل پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے، اس کے اسی چہرے سے نقاب اٹھا یا ہے امریکی مصنف مسٹر ایلیز ڈیوڈسن نے اپنی کتاب Betrayal of India میں اور بتایا ہے کہ دراصل اس واقعے کا ذمہ دار خود بھارت ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے برطانیہ میں عصمت سعید نے ایک تقریب کا انقعاد کیا جس میں خود مصنف کے ساتھ ساتھ تقریباََ سو افراد نے شرکت کی جن کا تعلق پاکستان سے تھا ۔یہ تقریب لندن انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا نے منعقد کی تقریب کی صدارت لارڈ نزیر احمد نے کی لارڈ قربان اور فیصل رشید بھی موجود تھے۔ اس کتاب میں ایلس ڈیو ڈسن نے وہ وجوہات بیان کی ہیں جن کی بنا پر اُس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ممبئی کے حملے خود بھارت اور اُس کے دوستوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کی منصوبہ سازی تھی ۔ ان حملوں سے بھارت نے کئی مقاصد حاصل کیے جن پر عوام کی طرف سے ردعمل آسکتا تھا لہٰذا یہ راستہ اپنایا گیا یعنی خود اپنے عوام کہ مارو اور پھر ان کی ہمدردی بھی حاصل کرو ۔ ڈیوڈ سن کے مطابق ممبئی پولیس کے لیے فنڈز درکار تھے جو ان حملوں کے بعد بڑی آسانی سے انہیں دے دیے گئے ۔ انہی حملوں کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اکیس فیصد کا غیر معمولی اضافہ کیا اس قدر بڑے اضافے کے لیے کوئی غیر معمولی وجہ ہونا ضروری تھی اور اسی کے لیے خاص منصوبہ بندی کی گئی اور خاص خدمات امریکہ اور اسرائیل سے حاصل کی گئی تاہم بہت احتیاط کے باوجود بعد کے اقدامات نے بھارت کا پول کھول دیا اور ڈیوڈسن جیسے لوگوں کی نظر میں یہی سب وہ ثبوت ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ سب کچھ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور اسی لیے اس واقعے سے پاکستان اور لشکر طیبہ کا انکار بالکل درست ہے اور اسے بہر حال تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت کی حکومت، عدلیہ، بیوروکریسی ، افواج اور خفیہ ایجنسیاں سب ہی مجرم ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے عوام کو دھوکہ دیا اور انہیں غلط معلومات پہنچائی اور انہیں گمراہ کیا۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ یہ پہلی اور واحد بار نہیں کہ بھارت نے اپنا کیا دھرا پاکستان کے سرمنڈھا ہو اس کے ریکارڈ پر ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں جو اُس نے خود کروائے اور اُس کا الزام پاکستان پر لگادیا اور وہ بھی بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی ثبوت کے ، اسی طرح مبئی حملوں کا الزام بھی پاکستان پر لگادیا، ابھی حملے جاری تھے بلکہ شروع ہی ہوئے تھے کہ حکومت اور میڈیا بیک زبان چیخ اٹھے اور پاکستان کا نام بھارت کے میڈیا پر گونجنے لگا ،عوام کی توجہ فوراََ مسئلے کے حل اور حملے کو ناکام بنانے کی کوشش کی بجائے مسئلے سے ہی ہٹا دی گئی اور اپنے پہلے سے ہی متعصب ہندو عوام کو پاکستان کے خلاف اکسانے پر تمام تر توانائیاں صرف کردی گئیں ۔سچ یہ ہے کہ اگر یہی زور حملہ روکنے پر لگایا جاتا تو بھارت کیَ َعظیم خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کو اس پر قابو پانے میں کم وقت لگتا لیکن ظاہر ہے ایسا کرنے سے اس منصوبے اور ڈرامے کے مقاصد حاصل نہ ہو پاتے جو اُس نے حاصل کیے اور ابھی تک کر رہا ہے وہ واحد بچ جانے والے حملہ آور کو بھی سزائے موت دے چکا ہے لیکن جب اس کا دل چاہتا ہے اور یا اپنے عوام کو دوبارہ پاکستان کے خلاف ابھارنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے ان حملوں کا ذکر چھیڑ دیتا ہے لیکن اب دنیا کو اُس کی مکاری کا اندازہ ہو رہا ہے اور اسی لیے یہ دوسرا نکتہ نظر سامنے آرہا ہے اور باقاعدہ تحقیق کے بعد آرہا ہے لیکن جیسا کہ اسی تقریب میں لارڈ نذیر احمد نے بھی اس معاملے پر روشنی ڈالی کہ پاکستان ایسے مواقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا مذ کورہ تقریب میں بھی صرف پاکستانی تارکین وطن نے شرکت کی جبکہ اگر حکومتی اور سفارتی سطح پر کوشش کی جاتی تو کسی برطانوی رکن پارلیمنٹ کو بھی اس تقریب تک لایا جا سکتا تھا اور دوسرے ملکوں کے برطانوی شہریوں کو بھی بلایا جا سکتا تھا اس طرح بھارت کا سازشی چہرہ پوری دنیا کو دکھا دیا جاتا لیکن ہم بحیثیت قوم اور ریاست دونوں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ممبئی حملوں کے معاملے میں تو خود ملک کے اندر سے آوازیں اٹھیں کہ حملہ آوار پاکستان سے گئے ہیں اور یہ بھی تاثر دیا گیا کہ جیسے حکومت اور ایجنسیوں کو اس کی خبر بھی تھی یوں ہم نے خاصی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا لیکن اب مزید اس رویے کی گنجائش نہیں اور اگر ایسے مواقع ہم گنواتے رہیں گے تو ہم نہ صرف اپنے فرائض سے غفلت برتیں گے اور اپنے ملک پر لگنے والے جھوٹے الزامات سے اس کا دفا ع نہ کر سکیں گے بلکہ دشمن کو مزید مواقع فراہم کریں گے کہ وہ دنیا میں ہمیں ذلیل کرے ۔قوم حکومت اور میڈیا سب کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں