523

شہر ناپرسان …….. زلزلوں کے حقیقی اسباب ، ضرور سوچئے گا ……… حافظ نصیراللہ منصور چترالی

fff2
وطن عزیز کو نظر لگ گئی ہے ۔صدی کا بد ترین سیلاب اور زلزلے نے چترال کے پہاڑوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کئی جانیں لقمہ اجل بن گئیں ہیں جو بچ گئے وہ بے گھر ہوگئے ۔کئی نفوس زخمی ہوئے ۔چترال کی تاریخ میں یہ ایک ایسادل ہلادینے ولا سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہرلب رو بہ پکار ہے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا حکومت کے ناقص انتظامات ہیں؟کیا سیکورٹی ایشو ہے ؟۔ ہر گز نہیں ۔یہ ایک ایسی آفت ہے کہ جس کی روک تھا م ناممکن رہی ہے ۔سائنس دان ہزار محنت کریں ریسرچ کریں نہ اس کی تحقیق ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ بتایا جا سکتاہے کہ زلزلے کی شدت کتنی ہے ،کتنا نقصان ہو اہے ،ابھی تک یہ نہ بتا سکے کہ زلزلے کب آئیں گے ،کتنی تباہی مچائیں گے۔ اس ضمن میں سائنس کلی طور پر عاجز ہے ۔ حالیہ ہولناک زلزلے کے بعد بھی چوبیس گھنٹے کے اندر مزید Aftershock کی پیش گوئی کرتے رہے ۔تدابیر بتاتے رہے لیکن اللہ تعالی کی مشیت اس کے برعکس تھی ۔زلزلوں کی روک تھام اور حفاظتی تدابیر کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے جو ہر ایک کی رسائی میں ہے اور وہ شریعت کی تابعداری ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ زمین کے کس حصے کی پلیٹیں ہلتی ہیں؟ اور کب ہلتی ہیں؟ یہ پلیٹیں روز روز کیوں نہیں ہلتیں ؟کیا کوئی اندھا قانون ہے ؟جو ان کو ہلاتا ہے ۔اس سوال کا جواب شریعت میں موجود ہے ۔شریعت کہتی ہے کہ دنیا کے طبعی اسباب اللہ تعالی کے حکم کے تحت ہیں۔ اللہ تعالی بندوں سے خوش ہوں تو اسباب بندے کے موافق ہو جاتے ہیں اور اگر اللہ تعالی ناراض ہوں تو اسباب بھی ناموافق ہو جاتے ہیں۔ بسا اوقات کسی جگہ کے لوگوں کے اعمال خراب ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے زمین کو حکم دیتے ہیں تو زمین ان کو جھٹکا دے کر خواب غفلت سے بیدار کرتی ہے اور ان توجہ خالق کائنات کے فرمان برداری کرنے کی طرف مبذول کر تی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’ اور آپ کا رب ایسا نہیں ہے کہ کسی بستی کو ہلاک کردیں جبکہ وہ بستی والے نیک کام کرنے والے ہوں ‘‘۔ قران میں ایک جگہ ارشاد فرمایا ’’ ہم نے کتنی بستیاں تباہ کر ڈالیں جو اپنی عیش و عشرت پر اترانے لگی تھیں‘‘ سورۃ القصص میں فرمایا ’’ اور ہم بستیوں کو ہر گز تباہ نہیں کیا کرتے مگر جب اس کے بسنے والے گناہ گار ہوں ‘‘۔ زلزلے ہر زمانے میں آتے رہے ۔نبی کریم ؐ ایک مرتبہ احد پہاڑ پر موجود تھے ۔یہ وہ پہاڑ ہے جس کے بارے میں آپ ؐ نے فرمایا تھا’’یہ ہم سے محبت کرتا ہے اورہم اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘ اس پہاڑ پر بنی کریم ؐ اپنے صحابہ ابوبکرصدیقؓ ،عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ کی معیت میں موجود ہیں۔اچانک زلزلہ آیا اور پہاڑ ہلنے گا شاید ریکٹر سکیل میں زلزلے کی شدت 8.1 سے بھی زیادہ ہو ۔ سرور عالم نے پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’اے پہاڑ تو کیوں ہلتاہے ؟ تیرے اوپر ایک نبی ،ایک صدیق او ردوشہداء موجود ہیں ‘‘زلزلہ اسی وقت ختم ہو جاتا ہے کہیں درخت کا پتا بھی نہیں گرتا ۔دوسرا واقعہ دیکھے! حضرت عمرؓ کا زمانہ ہے…. اپنے چند ساتھوں کے ساتھ کھڑے ہیں کہ اچانک زلزلہ آتا ہے توزمین ہلنے لگتی ہے ۔حضرت عمر فاروقؓ نے زمین پر اپنا پاؤں مارا اور فرمایا کہ ’’اے زمین تو کیوں ہلتی ہے؟ کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ ‘‘زلزلہ فورا رُک جاتاہے کوئی پتھر اپنی جگہ سے نہیں ہلتاچہ جائیکہ مکانات منہدم ہو جاتے۔ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نیک لوگ موجود ہوں گے تو طبعی طور پر آنے والے زلزلے بھی رُک جائیں گے ۔ جب لوگ اللہ کو ناراض کریں گے اور گناہوں کی عادت بڑھ جائے گی ۔لوگ گناہوں کو برا نہیں سمجھیں گے تو زلزلے آتے رہیں گے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حضرت شعیب ؑ کی قوم ناپ تول میں کمی کیا کرتی تھی اللہ تعالی نے ان پر زلزلے کا عذاب مسلط کردیاپوری قوم تباہ ہوگئی۔سورہ اعراف میں فرمایا۔’’سو انہیں سخت زلزلے کے عذاب نے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ‘‘ اسی قوم کے بارے میں حق تعالی نے سورہ مطففین میں ارشاد فرمایا ’’ تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے‘‘ یہ تباہی زلزلے کی شکل میں آئی تھی قوم زلزلے کی نذر ہوگئی۔ حضرت موسی ؑ کو چیلنج کرتے ہوئے جب قوم کے چالیس لوگ ان کے ساتھ چلے دئیے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ اللہ تعالی سے ہم کلام کیسے ہوتے ہیں ۔حضرت موسی ؑ کا اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا منظر دیکھ کر کہنے لگے ’’ ہمیں کیا پتہ یہ کس کی آواز تھی؟‘‘ سچ کو جھٹلانے لگے تو اللہ تعالی نے ان پر زلزلے کا عذاب مسلط کر دیا۔زلزلہ آیا اور وہ لوگ وہیں ہلاک کر دئے گئے۔
موسی ؑ کے زمانے میں قارون امیر آدمی تھا جب ان سے کہا گیا کہ اللہ نے تمہیں مال دیا ہے اللہ کا شکر ادا کیاکریں۔ اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔پیسے کے بل بوتے پر لوگوں پر ظلم مت کرنا۔ اللہ کے لئے ان کے مخلوق سے خیر خواہی کیا کریں ….. کہنے لگا ’’کیوں یہ مال تو میں نے اپنی قابلیت اور ہنر سے کمایا ہے۔ کسی نے مجھ پر احسان نہیں کیا ۔سورۃ قصص میں اللہ تعالی نے فرمایا’’پس ہم نے اس کو گھر سمیت زمین میں دھنسادیا‘‘او ر پوری قوم زمین کے اندر دھنس گئی ۔ اس امت پراللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہوں کے سبب چار طرح کے عذاب کے آنے کا احادیث میں تذکرہ ملتاہے۔ ’’خسف‘‘زمین کے اندر دھنس جانا’’رجف‘‘ زلزلے کا آنا’’مسخ ‘‘ شکلوں کا مسخ ہو جانا’’قذف‘‘ پتھروں کا برسنا۔ہر انسان کے ذہن میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ چار قسم کے عذاب امت پر مختلف صورتوں میں آتے رہے اورجب انسانوں کے اعمال اور افعال گناہوں میں لت پت ہوجائینگے تو عذاب بھی آتے رہیں گے۔گناہ اور معصیت کے مطابق عذاب کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا ۔زلزلے کیوں آتے ہیں؟ انہوں نے ارشاد فرمایا’’جب عورتیں غیر مردوں کیلئے خوشبو استعمال کریں ،جب عورتیں غیر محرم مرد کے سامنے ننگی ہونے میں جھجھک محسوس نہ کریں ،جب شراب اور موسیقی عام ہوجائے تو تم زلزلوں کا انتظار کرنا‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے ایک عجیب بات کہی ،فرمایا’’جب کسی قوم کے اندر سود او رزنا ،یہ دو چیزیں عام ہو جاتی ہیں وہ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کے لئے پیش کردیا کر تی ہے ‘‘۔اب لمحہ فکریہ ہے کہ زلزلوں سے ہم چلاتے کیوں ہیں ؟کیا ہم نے اللہ کے عذاب کو دعوت نہیں دی؟ کیا ہمارے معاشرے میں سود عام نہیں ہے ؟ کیا زنا کو حرام سمجھا جاتا ہے ؟کیا ہم ناپ تول میں کمی نہیں کرتے ؟ کیا عورتیں ہمارے حکمران نہیں ہیں ؟کیا موسیقی سے معاشرہ دل نہیں بہلارہا ؟۔
سورۃ الزلزل میں اللہ تعالی نے فرمایا ’’ جب ہلا دی جائے گی زمین اپنی پوری شدت سے اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہوا‘‘ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دانوں کے قول کے برعکس آتش فشان زلزلے کا سبب نہیں بلکہ زلزلہ آتش فشانی کا سبب ہے۔آج ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے : ہم بغیر اسباب جانے آفتوں کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام اسباب اِس زلزلے سے ہمیں نہ بچاسکے تو اُس زلزلے میں ہمارا کیا حال ہوگا ’’ان زلزلۃ الساعۃ شئی عظیم‘‘ ضرور سوچئے گا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں