252

’’ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘۔۔۔۔تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان 

یوم شہدائے پولیس پر پولیس فورس کے بہادر جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتی خاص تحریر
جیسا کہ پاک فوج کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصرسے جنگ کے دوران جام شہادت نوش کرکے تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں ، اسی طرح وطن عزیز کے اندر عوام کے جان ،مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لئے قائم اداروں میں سر فہرست محکمہ پولیس کا ادارہ ہے جوکہ ملک بھر میں دہشت گردی ،چوری، ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف برسرپیکار ہے ،پاک فوج کے جوان سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتے ہیں تو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز ملک کے اندر موجود ،دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصر وف عمل رہتے ہیں۔ قانون کی بالادستی ہو یا امن و امان کا قیام ، دہشت گردی کا خاتمہ ہو یاسماج دشمن عناصر سے مقابلہ ، ہر محاذ پر پولیس فورس کے بہادر جوان اپنی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ براء ہوتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں۔ شہدائے پولیس کی ان عظیم قربانیوں کی یاد میں نیشنل پولیس بیورو پاکستان کی جانب سے ہر سال چار اگست کادن یوم شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے ۔یوم شہدائے پولیس کے منانے کا مقصد قوم کے ان بہادر سپوتوں کی شجاعت کو سلام پیش کرنا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی یاد میں بڑی تقاریب کا انعقادکرناہے جس میں شہداء کی ارواح کو ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور محکمہ پولیس کے شہداء کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں کی پولیس اور سپیشل فورسز کی جانب سے صوبائی، ریجنل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جس میں پولیس افسران ،سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، ایف آر پی، ایلیٹ پولیس، ٹرنینگ سٹاف اور ٹریفک پولیس سمیت ہر یونٹ کے افسران اور جوان ، شہدائے پولیس کے لواحقین کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہری کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ یوم شہدائے پولیس پر اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پولیس فورس کے نہیں بلکہ پوری قوم کے شہدا ء ہیں اور ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو بھولے نہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے ، ہمیں ان کی عظیم قربانیوں پر فخر ہے۔نیشنل پولیس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی ، ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث عناصر سے لڑتے ہوئے ڈی آئی جی سے کانسٹیبل تک مختلف رینک کے2600 سے زائد پولیس افسران نے شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر بہادری کی ایک نئی داستان رقم اور محکمہ پولیس کی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔
بلاشبہ شہریوں کے ساتھ جب کوئی حادثہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ پولیس کو ہی اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں،کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پولیس ان کی مدد کو ضرورپہنچے گی۔پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ہرطرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں، موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طورپر موسم گرما میں پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی باوردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری بھرکم گن اٹھائے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پولیس فورس کی بات کرتے وقت عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، اور فوراً پولیس کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں۔ عوام ہو یا میڈیا غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے ، لیکن ان شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقات کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا اداراک ہے کہ پولیس جتنا سخت اور طویل ڈیوٹی کا کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا۔کیا کبھی معاشرے کے کسی فرد نے فرض کی ادائیگی کے دوران ان اہلکاروں کے چہرے ، اور ان کی آنکھوں میں چھپی حسرتوں کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ عید جیسے تہوار پر ان کے بچے کتنی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہوں گے؟کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیرو تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے ان کی سیکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا؟ تمام تر معاشرتی بے حسی ، نفرت ، تنقید،تمسخر اورشدید ترین نقطہ چینی کے باوجود پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان پولیس کا نظام انحطاط کا شکار رہا ہے اور اسکی بنیادی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت تھی۔ برسراقتدار افراد اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے جس سے پولیس عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کر نے میں اپنے اصل منصب سے دور ہوتی گئی ۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پولیس سسٹم میں خاصی بہتری آئی ہے ، محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہواہے اور اعلیٰ پولیس افسران نے اپنی ساری توجہ عوام کے پولیس پر اعتماد کو بحال کرنے پر مرکوز کررکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سنگین وارداتوں کا گراف نیچے آیا ہے۔ پولیس سسٹم میں مذید بہتری کے لئے برسراقتدار طبقے، محنتی دیانت دار اور عوام دوست افسران کو ترقی دیکر اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں بڑی جنگوں اور معاملات میں نہ تو پولیس کو ملوث کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان سے نپٹنے کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ میں ملوث ہو گئے جو ہماری تھی ہی نہیں ،غلط فیصلوں اور غلط لالچ سے یہ پرائی جنگ ہمارے آنگن کی جنگ بن گئی اور اس میں سول آبادی بھی زد پر آگئی اس گھمبیر صورتحال میں لیے پولیس کو بھی اس میں شامل ہونا، پڑا کیونکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمے داری تو ان کو نبھانا پڑتی ہے۔ ان حالات میں جب وطن عزیز میں دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہ تھا پولیس نے مسلح افواج اور دیگر فورسز کے ساتھ مل کر امن و امان کے قیام میں مثالی کردار ادا کیا ، اس حوالے سے سب سے زیادہ قربانیاں قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دی ہیں جنہوں نے شہادت کا جھومر ماتھے پر سجا کر ملک و ملت اور عوام کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ یوم شہدائے پولیس درحقیقت پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور اشتراک عمل کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے جس سے بھر پور استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔حکومت کو آئندہ نسلوں کو پولیس کے شہداء کے کارناموں سے با خبر رکھنے کے لئے ٹیکسٹ بک بورڈز کے تحت چھپنے والی درسی کتابوں میں اسباق شامل کرنے پر غور کرنا چاہیے ۔ جس طرح افواج پاکستان کے شہدا کے تذکرے سے ان کی یادیں روشن کی جا رہی ہیں اسی طرح پولیس کے شہداء کی یاد بھی نئی نسل کے سامنے اجاگر کرکے یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جاسکتی ہے کہ پولیس اہلکار بھی ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سر شار اورجرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر لمحہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ یوم شہدائے پولیس پر ہمیں شہدا ء کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا عہد کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کے پیاروں کی لازوال قربانیوں کی بدولت تمام شہری امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں