557

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔’’ملک کا وزیر اعظم ‘‘۔۔۔۔محمد جاوید حیات

’’ملک کا وزیراعظم ‘‘یہ ایک فقرہ نہیں یہ پورا ملک جہان اس کے اندر سیاست کا سمندر ،مرتبے کا دریا ، مقام کاپہاڑ ، خلوص کے چٹانین محبت کے پھول ، نفرت کے کانٹے ، وقت کی طنا بیں، ہوا کا رخ ، اقتدار کی چمک ،سرزمین اور سونی دھر تی کی خوشبو ،اور قوم کا تعارف سمایا ہوتاہے ۔یہ ایک ’’ فرد ‘‘ نہیں ہوتا یہ ایک’’ انجمن ‘‘ ہوتاہے۔ یہ آگے آگے ہوتا ہے اس کے پیچھے پوری قوم ہوتی ہے قوم کا سب کچھ اس سے وابستہ ہوتاہے۔ یہ غمی خوشی کا ضمانت ہوتاہے۔اس کی رگوں میں دورٹا ہوا خون اس کا اپنا نہیں ہوتا ساری قوم کا ہوتاہے ۔قوم کے ایک ایک فردکا ایک ایک قطرہ جمع ہوکر اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہوتاہے ۔اس کی آنکھوں میں درون بینی اور بیرونی بینی ہوتی ہے۔ وہ آگے آگے پیچھے اوپر نیچے سے پر نگاہ رکھتا ہے ۔اس کے بازو تلوار کے ہوتے ہیں۔اس کے سینے میں دل نہیں ہمت اور حوصلے کی ایک چٹا ن رکھا ہوا ہوتاہے ۔اس کو ’’ مستقل مزاجی ‘‘ ،’’ صبر ‘‘،’’برداشت‘‘،’’ قناعت‘‘اور شعور عطا کیا جاتاہے۔وہ استقلال کا دیوتا ہوتاہے۔ اس کاآرام چھین لیا جاتاہے اس کی کوئی راتیں اور دن نہیں ہوتے ۔ اس کے پاس سونے جاگنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ صر ف ’’ کام ‘‘ کاوقت ہوتاہے۔اس کے ’’ الفاظ‘‘ گنے جاتے ہیں ۔اس کے فیصلے سے تقدیریں بدلا کرتی ہیں ۔اس کے سینے میں قوم کا درد دو جزن ہوتاہے ۔اس کے کاندھے اقتدار کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہوتے ہیں اس کو لمحہ بہ لمحہ حق و باطل کے امتحان کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔اس کو ’’ چمکتی کرسی ‘‘ کی فکر نہیں ہوتی ۔اس کے پاس قوم کی امانت ہوتی ہے۔ اس کوپائی پا ئی کا حساب دینا ہوتاہے۔وہ جب کھانے کے لئے ’’ لقمہ‘‘ اُتھا تاہے ۔تو اس کے آنسو گرتے ہیں ۔’’ لقمہ ‘‘ ہاتھ میں ہوتاہے مگر وہ کسی اور دنیا میں چلا جاتاہے۔اس کے سامنے غربت کی چکی میں پسی ہوئی مخلوق روکھی سوکھی ہاتھوں میں اُٹھا تے نظر آتی ہے۔کوئی افسردوہ چہر ہ اس کو تک رہاہوتاہے۔ کوئی پرانے کپڑوں کے چھتیڑے نکالے اس میں سے جھانگتے ننگے جسم اس کو جھانگ رہا ہوتاہے۔وہ تڑپ اُٹھتاہے لقمہ ہاتھ سے پلیٹ میں گرتاہے۔ساری رنگیناں اس کی نظر وں کے سامنے سے لپٹائی جاتی ہیں۔وہ کبھی تو ودق صحرا میں ہوتاہے ۔کبھی ویران گلیوں میں ،کبھی بوسیدہ جھونپڑیوں میں،کبھی جھلستی گرمی میں ننگے پاؤں چلتے بچوں میں،کبھی گلیشراور برف میں ٹھٹھرتے موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈالے اس جوان کے ساتھ جو ملک وقوم کی حفاظت کی قسم کھاتے ہوئے کھڑا ہے ۔وہ مر مر کے جیتا ہے ۔وقت کے کانٹے اس کو چھبو دیتے ہیں۔اس سے بے شمار توقعات وابستہ ہوتے ہیں ۔روٹی سے محروم اس سے روٹی کی توقع کرتاہے۔روزگار سے محروم توقع رکھتا ہے کہ وہ روزگار دے گا ۔عہدہ سے محروم عہد ہ مانگتا ہے ۔سیلاب آئے تو اس کوپکاراجاتاہے۔زلزلہ آئے تو اس کودھائی دی جاتی ے ۔وہ پہنچتاہے وہ اُڑ کے پہنچتا ہے ۔وہ دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتا ہے ۔یاس زدہ مکھڑوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔بے سہاروں کو سہارا اور بے سیائبانوں کو سائبان ملتا ہے ۔تب مخلوق کو اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کی آرزو ہوتی ہے۔تب اغبار تک اس کے احترام میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔تب اس کے نام سے دشمن لزرہ برآند ام ہوتے ہیں ۔تب اس کے ملک کے کسی دریا کے کنارے کتا بھوکا نہیں مرتا،تب اس کے ساتھ غیب کی مد د ہوتی ہے ۔تب اس کے پاؤں تلے مٹی آنکھوں کاسورما ہوتی ہے۔تب اس کا چہر ہ چمکتا ہوا چاند نظر آتاہے۔تب اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔تب ساری اچھائیاں اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔تب اس کے ملک میں اطمینان،امن ،سکون اور خوشحالی کی اندھی چلتی ہے۔تب اس کی مٹی پر رحمت کی بارش ہوتی ہے اور اس سے وفا کی خوشبو آتی ہے۔تب اس کی حمایت کاسورج کبھی غروب نہیں ہوتا ’’ ملک کاوزیراعظم ‘‘ کوئی عام فقرہ نہیں یہ اپنے اند ایک جہان آباد رکھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں