420

انتخابات اور تبدیلی کی لہر ۔۔۔۔۔تحریر: ناہیدہ سیف ایڈوکیٹ

شکر ہے بہت سارے ابہام کے باوجود ملک میں انتخابات ہو گئے کچھ افسوسناک واقعات بھی ہو ئے تاہم یہ اطمینان والی بات ہے کہ ملک میں ایک اور جمہوری دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور تبدیلی کے ساتھ ایک نئی پارلیمنٹ دیکھنے کو ملے گی اور اس پارلیمنٹ کا روح رواں ہو گا جناب عمران خان،وفاق کے ساتھ ملک کا سب کا بڑا صوبہ پنجاب جس کے ہاتھ میں حکمرانی کی اصل کنجی بھی ہے اس دفعہ خان صاحب حکومت بنانے میں بھی شاید کامیاب ہو جائے ،اس کے علاوہ کے پی کے میں پی ٹی آئی نہ صرف دوبارہ کلین سویپ کرنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ بڑے بڑے اپ سیٹ بھی دیئے اسی طرح تبدیلی کا آغاز ہو چکا ،تبدیلی کی اس لہر کا سلوگن تھا کرپشن فری پاکستان،اس سلوگن کو کامیاب بنانے کے لئے خان صاحب نے ملک کے اس پڑھے لکھے نوجوان طبقہ کو فوکس کیا جو سیاست کے بارے میں کہتا تھا گندہ پالیٹکس چھوڑ و یار یہ شریف لوگوں کا کام ہی نہیں،اب یہ طبقہ نہ صرف اس سلوگن کی حمایت میں پیش پیش تھا بلکہ جنون بن کر بھرپور طریقے سے ان کا ساتھ بھی دیا کیونکہ اس ملک کا ہر ایک ایماندار بندہ اور خاص کر نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ کرپشن نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اس سے نجات پائے بغیر اس ملک کی ترقی ممکن نہیں،یہ حقیقت ہے کہ زمانہ بدل گیا لوگ باشعور ہو گئے الیکٹرانک میڈیا نے دنیا کو فنگر ٹپس تک محدود کردیا کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ پریکٹیکل کام کر کے دیکھا نا ہوتا ہے تاکہ آپ کے ساتھ چلنے والے لوگ جو ایک نظریہ کے ساتھ چلتے ہیں ان کو اطمینان ہو کہ صرف بات نہیں اپ عمل بھی کر سکتے ہیں سینٹ الیکشن میں اپنے بکے ہوئے ممبر ز کے خلاف سخت ایکشن نے نہ صرف تحریک انصاف کی ساکھ بچا لی بلکہ پہلے سے زیادہ میجارٹی دلوا کر اس فیصلہ کو درست ثابت کر دیا الیکشن کے قریب اتنا بڑا فیصلہ ایک واضح پیغام تھا کہ کرپٹ عناصر کے ساتھ کوئی کمپرومائز کسی صورت برداشت نہیں جن کو عزت سے ذیادہ پیسوں کی لالچ ہے عزت راس نہیں اتی ہضم نہیں ہوتی تو جا سکتے ہو اس فیصلے نے نہ صرف خان صاحب کے مخالفین کو متاثر کیا بلکہ وقت نے بھی صحیح فیصلہ ثابت کردیا،یہ بھی ایک الگ رونا ہیکہ زمانہ جاہلیت میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی آج کے دور میں ممبرز کی ہوتی ہے خیر پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کے پی کے میں اتنا ائیڈیل شاید نہ ہو تاہم کچھ اصلاحات ایسے ضرور ہیں جو بہتری کی طرف اچھے اقدام ہیں جیسے میرٹ ،پولیسنگ میں بہتری وغیرہ پہلے نوجوانوں کو کاموں کے لیے کسی ایم این اے یا ایم پی کے گیٹ پہ دھکے کھانے پڑتے تھے ان سے کافی حد تک نجات مل گئی ،مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کی منت،سماجت کر کے ان کا ووٹ لینے کے بعد یہ ان کا فون سننا تک گوارا نہیں کرتے کسی سی ایس ایس افیسر یا کسی جج کی طرف سے یہ سلوک سمجھ آتی ہے کیونکہ اس نے اپنی اعلی ذہنیت اور قابلیت سے اس جگہ تک پہنچا ہوتا ہے اور ساٹھ سال انہوں نے رہنا ہے لیکن صرف پانچ سال کے بعد دوبارہ اسی عوام کے پاس اپ نے آنا ہے تو یہ اکھڑ کس لیے،مجھے یقین ہے کہ ان میں سے زیادہ وہ لوگ ہیں جن کو آئین پاکستان میں دیئے گئے عوامی بنیادی حقوق کے دس شقوں کا پتہ ہو یا نہ ہو تاہم کرپشن کے ہر طرح کے ٹیکٹس کا بہت اچھی طرح پتہ ہے ،خوش آئند بات یہ ہے کہ اس دفعہ نوجوانوں نے ایسے سارے مافیاز کو مسترد کر دیئے یہ ایک مثبت تبدیلی ہے جوکہ اس ملک کے نوجوان لے کہ آئے ہیں اور یہ جاری رہنا چاہئے کسی بھی بندہ کو دو سے زیادہ ممبر نہیں بننے دیا جانا چاہیے اس سے پارٹی کے اندر ڈکٹیٹر شپ ختم ہو گی اور پارٹی پر قبضہ مافیا کا راج ختم ہو گا یہ ہر پارٹی کے نوجوان کر سکتے ہیں اور یہ
جمہوریت سے موروثیت ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے دو ٹینیور کسی کے لیے بھی کافی ہوتا ہے کسی اور کو بھی موقع ملنا چاہیے کسی کو اگر زیادہ شوق ہے تو وہ آزاد کھڑا ہو سکتا ہے یا پھر کوئی فلاحی ادارہ چلا کر عوام کی خدمت کر سکتا ہے خدمت کے لیے حکومتی کمیشن والے فنڈز ہی ضروری نہیں ہوتے ،اس الیکشن کی یہ بھی ایک بڑی سرپرائز تھی کہ بہت سارے پولی ٹیکش خاص کر پنجاب کے اندر جو پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے پی ٹی آئی ورکرز کے ان کے بارے میں تحفظات تھے ان کے لیے کام نہ کر کے ہروایا ، پی ٹی آئی کو اپنا ٹائم پورا کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیے نوجوانوں کا دور آگیا اگلا دور بھی انہی کا ہوگا جو نوجوانوں کو موٹیویٹ کرے گا ان کو یہ اعتماد دلائے گا کہ ان کی پارٹیز میں بھی ان کے لیے جگہ ہے شاعرمشرق علامہ اقبال نے بہت پہلے یہ دعا مانگی تھی کہ جوانوں کوپیروں کااستادکر ،ان کو اپنی نوجوانوں پر نہ صرف اعتماد بلکہ یقین بھی تھا ، دنیا میں اب کرپشن کے خلاف تحریکیں شروع ہو گئی ہے سعودی عرب میں کچھ مہینے پہلے کرپشن کے خلاف سخت ایکشن پکڑ دھکڑ، انڈونیشیا میں قوم نے نوے سالہ مہاتمیر محمد کو دوبارہ اقتدار سونپا ہے انہوں نے آتے ہی کرپٹ مافیا کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے،چیزیں آنی جانی ہوتی ہیں
اقدار اور کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہے انسان میں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرت ہونی چاہئیے ایک کمپرومائزڈ انسان سیاستدان تو ہو سکتا ہے پر لیڈر کبھی نہیں بن سکتا کیونکہ لیڈر ہمیشہ بے باک نڈر اور صاف گو ہوتا ہے
جب قوم کو اپنے لیڈر پر اعتماد ہوتا ہے تو طیب اردگان کے ایک پیغام پر نوجوان ٹینکوں کے نیچے لیٹ جاتے ہیں پر اس کے لیے تین سال کے اندر طیب اردگان کی طرح قرضہ اتار کر اپنے ملک کو مہذب ممالک کے صف میں کھڑا کرنا ہوتا ہے یہ کام مشکل نہیں ہے اگر نیت ٹھیک ہو تو چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے عمران خان صاحب کی پہلی تقریر کافی حوصلہ افزا ہے اگر اس پہ عمل کیا تو اس ملک کا ہر بندہ نئے پاکستان میں ان کا شانہ بشانہ ہو گا کیونکہ کرپشن فری پاکستان اس ملک کے ہر ایماندار باسی کا خواب ہے، نوجوانوں نے جس جذبہ سے خان صاحب کا ساتھ دیا ہے ان کو مایوس نہیں بلکہ ان کے اعتماد کو مزید بڑھانا ہو گا تبھی ممکن ہو گا نیا پاکستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں