277

ذی الحجہ حرمت وعزت والا مہینہ۔۔۔!۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان 

اسلامی سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت سے ہی محترم بنا رکھا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے ’’قسم ہے فجر کی ،اور دس راتوں کی‘‘ ۔ مفسرین کی اکثریت کے مطابق ان دس راتوں سے مرادذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہی ہیں، امام ابن کثیرنے بھی اپنی تفسیر میں اسی کو صحیح کہا ہے۔جبکہ جو ذات خود عظیم ہو وہ صاحب عظمت شے ہی کی قسم کھاتی ہے، اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت و فضیلت کی واضح دلیل ہے جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ و افضل قرار دیا ہے، ذی الحجہ کے دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو نیک عمل جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اور دنوں میں بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھرکے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں‘‘ ( ترمذی)۔ ایک دوسری حدیث میں خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر(یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا’’کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں؟) فرمایا’’نہیں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ سوائے اس شخص کے جواپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا) ‘‘۔ حج جیسی عظیم عبادت کا رکن اعظم یومِ عرفہ بھی انہی ایام میں ہے اسی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو‘‘۔یوم عرفہ انتہائی شرف و فضیلت کا حامل ہے یہ گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے۔ اگر اول عشرہ ذی الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا‘‘۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا ،حقیر، ذلیل اور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرفِ نظر کا مشاہدہ کرتا ہے‘‘۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے‘‘ (صحیح مسلم)۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ احادیت مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نوروزے، دس محرم اور ہرمہینے کے تین دن (ایامِ بیض) کے روزے رکھتے تھے۔ واضع رہے کہ عشرہ ذی الحجہ میں روزے نو ذی الحجہ تک ہی رکھے جاسکتے ہیں، دس ذی الحجہ کو عید ہوتی ہے جس کا روزہ رکھنا جائز نہیں، اسی طرح عید الاضحی کے بعد 11، 12، 13 ذی الحجہ جو ایامِ تشریق کہلاتے ہیں ان میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ۔
حج کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی عید، عید الاضحی بھی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو ہوتی ہے۔ عید کا دن جہاں خوشی ومسر ت کا دن ہوتا ہے وہیں عید کی رات انعام و الطاف کی رات ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور نوازش عید کی رات میں ہوتی ہے چاہے وہ عید الفطر کی رات ہو یا عید الاضحی کی رات دونوں نہایت ہی اہمیت والی راتیں ہوتی ہیں اور انسانون کے لئے سعادت کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ جس شخص نے عید یدن کی راتوں میں اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی خاطر قیام کیا تو اس کا د ل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے‘‘ ( ابن ماجہ)۔ قربانی جیسا عظیم اور مہتمم بالشان عمل بھی اسی مہینے میں انجام دیا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم سنت قیامت تک جاری رہے گی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں، اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو‘‘ (ترمذی)۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی‘‘(سنن ابن ماجہ)۔سنت ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے رہے (ترمذی) ۔غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی باوجود یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں بوجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ قربانی کی شرائط میں ہے کہ جانور ظاہری عیوب سے پاک ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’ہم جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قربانی کے لئے چار عیبوں والا جانورذبح نہیں کیا جا سکتا۔ (1) کانا، جس کا کانا پن ظاہرہو۔ (2) بیمار، جس کی بیماری واضح ہو۔ (3) لنگڑا ، جس کا لنگڑاپن واضح ہو۔ (4)ایسا لاغر کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ ہو‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے‘‘۔ یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔
عشرہ ذی الحجہ میں تکبیر و تسبیح اور ورد کی تلقین فرمائی گئی ہے ، اور بطور خاص ایام تشریق میں تکبیرا ت تشریق پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تکبیر تشریق 9 ذی الحجہ کی فجر سے 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا مرد و عورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے۔ تکبیر تشریق صرف ایک دفعہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے۔جس شخص کی اما م کے ساتھ رکعتیں رہ گئی ہوں اسے اپنی باقی نما ز پوری کرکے سلام پھیر نے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنی چا ہیے ۔ واضع رہے کہ تکبیر تشریق صرف فرض نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے، سنت اور نفل کے بعد نہیں۔تکبیرات تشریق یہ ہیں ’’اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔لاالہ الا اللہ۔۔۔ و اللہ اکبر ۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔وللہ الحمد‘‘۔ لہٰذا ایام تشریق میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ یوں توذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں،جن میں بڑی بڑی عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں یعنی نماز، روزہ ، حج اور قربانی ،ان تما م خصوصیا ت کی بناہ پر اس عشرہ کی اہمیت اور افضلیت دو چند ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ رمضان المبارک کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے، ہمیں ان بابرکت ایام میں بڑھ چڑھ کر نیک اعمال کرنا چاہیے۔دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے اعمال کو اپنی بارگاہ رحمت میں قبول فرمائے ، آمین ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں