244

یہ 14 اگست بھی عجیب ہے

محمدجاوید حیات

یہ 14 اگست بھی عجیب ہے ۔ہر سال آتا ہے ۔۔چودہ اگست کی صبح سورج نکلتا ہے ۔روشن دن چھڑتا ہے ۔۔پھر شام آتی ہے ۔۔پھر دوسرا سال آتا ہے ۔۔آج سے71سال پہلے جب یہی سورج نکلا تھا تو منظر کچھ اور تھا ۔۔ہر طر ف خوشی کے آنسو تھے ۔جذبے تھے ۔۔عزم تھا ۔۔ہمت تھی ۔۔منزل کی طرف جدہ پیمائی تھی ۔۔قربانی کا جذبہ تھا ۔۔ایثار کی فضاء تھی ۔۔احترام تھا ۔کھرا پن تھا ۔۔امانت کی پاسداری تھی ۔۔جذبہ تعمیر تھا ۔۔رگوں میں خون گرم تھا ۔۔سب خدمت سے سرشار تھے ۔۔ہوس اقتدار کوئی نہیں تھا ۔۔قوم تھی اور قوم پہ فخر کیا جاتا ۔۔بظاہر بے سرو سامانی تھی ۔۔اکثر چولہے جلتے نہیں تھے ۔۔معصوم بچوں کے کپڑوں کے چیتڑے نکلے ہوئے تھے ۔۔سڑکیں کچی تھیں ۔۔کچے گھر تھے ۔۔مرمر کی سیلو ں سے لوگ واقف نہیں تھے ۔۔دفتروں میں چمکتی کرسیاں نہیں تھیں ۔۔پروٹوکول ۔۔یس سر ۔۔نو سر ۔۔کا ورد نہیں تھا ۔۔خفیہ ہاتھ کوئی نہیں تھا ۔۔ناجائز ذرایع کا تصور نہیں تھا ۔۔۔اونچ نیچ پاٹ دئے گئے تھے ۔۔دھوکا ۔۔ فریب ۔۔ جھوٹ ۔۔لالچ سے سب نااشنا تھے ۔۔ہر طرف امن چین اور احترام کی کوششیں ہورہی تھیں۔۔ دوسروں کو آرام پہنچا کر اطمنان حاصل کیا جاتا تھا ۔۔بھائی کو بھائی سے ۔۔بہن کو بہن سے ۔۔ماں باپ کو اولاد سے ۔۔آفسر کو ماتحت سے ۔۔استاد کو شاگرد سے ۔۔حکمران کو عوام سے ۔۔امیر کو غریب سے ۔۔آقا کو غلام سے ۔۔شہری کو سرحدوں کے محافظ سے پیار تھا ۔۔محبت تھی ۔۔عقیدت تھی ۔۔اللہ سے کیئے گئے سارے وعدوں کی گونج پاک سر زمین کے ذرے ذرے سے آرہی تھی ۔۔سورج بہت خوش تھا ۔۔چودہ اگست کو اس پاک سر زمین پہ فخر ہونے لگتا ۔۔پھر ایک دفعہ چودہ اگست کا سورج نکلا تو دیکھا کہ دشمن نے اس پاک سر زمین پہ دہشت کی جنگ مسلط کی ہے۔۔ ابھی اس سر زمین کی عمر صرف دو سال تھی مگر اس کے شیر دل باشندے اس کے دفاع میں جتے ہوئے ہیں۔۔پھر 1949 کا چودہ اگست آتا ہے ۔۔سورج افسردہ ہوتا ہے کہ یہاں پہ جمہوریت پنپتی نہیں ۔۔پھر چودہ اگستوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔۔1965 آیا ۔چودہ اگست کو فخر ہوا کہ مادر وطن کی سر زمین سرفروشوں کے خون سے رنگین تھی ۔۔پھر1971کا چودہ اگست رو رو کے آیا اور رورو کے گزرا ۔۔اس پاک دھرتی پہ چودہ اگست آتا رہتا ہے ۔۔کبھی مایوس کبھی پر امید گزرتا ہے ۔۔مگر نہ آنے کا کہہ کر نہیں جاتا ۔۔البتہ فکر مند ہے ۔۔۔شکوہ کنان ہے ۔۔اس کو ان وعدوں کی گونج کہیں سے سنائی نہیں دیتیں ۔۔وہ پاکستان کا مطلب ۔۔۔وہ جذبہ تعمیر ۔۔وہ قومی زبان ۔۔لباس ۔۔قومی شناخت ۔۔وہ قومی حمیت ،غیرت ،خودداری کہیں نظر نہیں آتی ۔۔چودہ اگست آتا ہے ۔۔تو سرفروش اس سر زمین پہ پاوں مار کر اپنی سر فروشی کا وعدہ تازہ کرتے ہیں ۔۔حکمران اپنی خدمت کرنے کا اعادہ کرتے ہیں ۔۔بچے نغمے گا گا کر اس کو سریلی آوازوں سے بھر دیتے ہیں ۔اس سر زمین کو ہر طرح سے سجائی جاتی ہے ۔۔مگر جب ایک دوسرے پہ اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے تو چودہ اگست پھر سے افسردہ ہوتا ہے ۔۔چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ پاک دھرتی تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے یہ آپس کا خلوص چاہتی ہے ۔محبت احترام چاہتی ہے ۔۔قربانی چاہتی ہے ۔۔محبت چاہتی ہے ۔۔ایسی محبت جو ماں کو اپنے جگر گوشے سے ہوتی ہے ۔۔اس مٹی کو چومو ۔۔اس کے محافظوں کو اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھو ۔۔اس کے حکمران سے سچی محبت کرو۔۔ اس کو آپ کی فکر ہو ۔۔وہ مخلص ہو ۔۔وہ خدمت سے سرشار ہو ۔۔اپنے اداروں کو ہر کمزوری سے پاک رکھو ۔۔چودہ اگست عجیب ہے۔۔۔ ہر سال آکر اس طرح دھائی دے کر اس دھرتی کی سلامتی دعا مانگ کر چلا جاتا ہے ۔۔اس کی سرحد پہ جا کر اس سپاہی کی پیشانی چوم کر جاتا ہے جو اپنی بندوق کو مضبوطی سے پکڑے کھڑا ہے ۔۔اس شاہین کے کاپٹ سے پہنچتا ہے جو ہواوں میں قلا بازیاں کھا رہا ہوتا ہے مگر چودہ اس کی پیشانی چومتا ہے تو یہ مذید پلٹ کر جھپٹتا ہے تاکہ اس کا خون مذید گرم ہو جائے ۔۔یہ جا جا کر اٹم بم ۔۔میزائیلوں اور ٹینگوں کو بوسہ دیتا ہے ۔۔پھر اٹیمی سائنسدانو ں کے پاوں چومتا ہے ۔۔پھر اس مٹی کو اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگا تا ہے ۔۔جب شام آتی ہے ۔۔۔۔تو ۔۔۔چودہ اگست عجیب ہے ۔۔۔کہ نم اکھیوں کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔۔۔اگلے سال کے لئے بہت ساری اُمید لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں