گاہکوچ ضلع غذر کا سٹی ایریا ہے۔گلگت شہر سے گاہکوچ تک 70کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔سرکار کے تمام مرکزی محکمے گاہکوچ میں ہی ہیں۔گاہکوچ کے دائیں بائیں درجنوں پکنک پوائنٹس ہیں جہاں زندگی کی تمام فطری خوبصورتیاں موجود ہیں۔گاہکوچ سے 17کلومیٹر کے فاصلے پر ہوپر نامی جگہ ہے ۔یہ ایک مختصر سی جگہ ہے۔ ہوپر گارڈن کے نام سے ایک ہوٹل قائم کیا گیا ہے جو بہترین پکنک پوائنٹس میں شمار ہوتا ہے۔ملکی و غیرملکی سیاحی یہاں چائے نوشی کے لیے ضرور رُکتے ہیں۔ہم نے بھی کئی بار ہوپرگارڈن میں چائے کی چاہ پوری کی۔ہوپر میں چنار کے درختوں پر ایک بہترین دو منزلہ نشست بنائی گئی ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ تھلگ ہے۔ یہاں سیاح بیٹھ کر خوب محظوظ ہوتے ہیں، ہوپر کے بعد راوشن کا خوبصورت گاوں ہے۔ گاہکوچ سے ہائم تک دس کلومیٹر جبکہ راوشن تک 30کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔یہ تمام نالے اور وادیاں بھی حسن و جمال اور قدرتی رعنائیوں میں اپنی مثال آپ ہیں۔گاہکوچ سے اگر گلگت کی طرف جاتے ہیں تو 4کلومیٹر کے فاصلے پر کانچے،۹ کلومیٹر بوبر،۱۴ کلومیٹر پر سنگل،29کلومیٹر پرشیرقلعہ34کلومیٹر پر گلاپور اور بیارچی ہیں۔یہ سارے علاقے بھی مثالی ہیں۔گاہکوچ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ گاہکوچ بالا اور گاہکوچ پائین۔ پرانی آبادی گاہکوچ بالا میں ہے تاہم ابھی لوگوں کی بڑی تعداد سٹی یعنی گاہکوچ پائین میں منتقل ہوچکی ہے۔ گاہکوچ بالا کے متصل عیشی نام کا گاوں بھی ہے ۔عیشی بہت بڑا اور پھیلاہوا گاوں ہے۔ میرے دوست حکیم جاوید صاحب کی معیت میں عیشی کا سیر کی۔ عیشی ٹھوکو(ٹیلے)میں ایک بہت بڑا گروانڈ سلطان مدد نے تعمیر کروایا ہے جو اپنی نوعیت کا ٹیلہ نما پہاڑی پر بنایا گیا ایک بہتر ین گروانڈ ہے۔ ہزاروں ناظرین کے لیے بہترین نشستیں بنائی جارہی ہیں۔ عیشی پولو گراونڈ سے گاہکوچ اور اس کے تمام مضافاتی پکنک پوائنٹس اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ حکیم جاوید صاحب اور اس کے ماموں نے عیشی کی گلی گلی گھمایا یا، قبرستان سے لے کر ٹھوکو تک کے سفر نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا۔عیشی میں جتنی بڑی آبادی ہے اسے زیادہ بنجر اراضی بھی ہے۔حکیم جاوید صاحب کی پوری فیملی اسماعیلی کمیونٹی سے ’’بلانگ ‘‘ کرتی ہے ۔ ننھیال عیشی میں ہی ہیں اور اسماعیلی ہیں لیکن جاوید صاحب 22 سال پہلے اپنے کنبے کے ساتھ اہل سنت کمیونٹی میں شامل ہوئے ہیں۔جاوید صاحب کے اپنے ننھیال اور دوھیال کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں۔اپنے رشتہ داروں اور فیملی کے حقوق کا بھرپور خیال کرتے ہیں۔ ان کی زندگی تلخ و شریں یادوں سے عبارت ہے۔ گاہکوچ سٹی میں ان کا حجامہ سینٹر ہے جہاں مریضوں کا طب نبوی ﷺ کی روشنی میں علاج فرماتے ہیں۔طب پر دو کتابیں بھی تصنیف فرماچکے ہیں۔ بہت ہی ملنسار اور عاجز انسان ہیں،علم دین کے ساتھ علم طب کا بھی عالم ہیں۔ گاہکوچ بالا میں آغاخان فاونڈیشن اور سرکارکے اشتراک سے اسماعیلی کمیونٹی کے لیے ایک بڑی ’’دیدار گاہ‘‘ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ گاہکوچ بالا میں ایک ڈھائی سوسال قدیم فورٹ بھی ہے۔یہ ایک بہت بڑا فورٹ تھا لیکن امتداد زمانے نے اس کوتہہ و بالا کیا ہے۔ گاہکوچ فورٹ سیکورٹی کے اعتبار سے قدیم زمانے میں انتہائی مناسب جگہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول ممتاز گوہر کے اس فورٹ کے چار برج تھے۔ اب صرف ایک ہی باقی ہے۔ فورٹ کی بوسیدگی پر انتہائی افسوس ہوا۔فورٹ کے سامنے ایک پرانا پولو گراونڈ بھی ہے۔ فورٹ کی کئی عمارتیں اب بھی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ہم نے کئی کنال پر مشتمل فورٹ میں ماضی کو ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یاد ماضی عذاب ہی رہا۔ چند تراشے ہوئے تعمیراتی پتھروں اور کچھ تعمیراتی لکڑی کے لیے فورٹ کو ڈھانے والوں نے قیامت ہی ڈھایا ہے۔ آج بھی آغاخان فاونڈیشن تھوڑی سی توجہ دیں تو بلتت فورٹ کی طرح گاہکوچ فورٹ کو بھی ایک بہترین سیاحت گاہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جو لاکھوں زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔گاہکوچ بالا سے بہت سارے گاوں واضح نظر آتے ہیں۔ گاہکوچ سٹی میں مفتی شیرزمان صاحب اور ا س کے رفقاء نے 1998ایک بہترین اور وسیع دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا ہے جو دارالعلوم غذر کے نام سے معروف و مشہور ہے جہاں چار سو سے زائد طالبات اور تین سو سے زائد طلبہ ہمہ وقت دینی تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں۔جن کے مکمل قیام و طعام کا بندوبست دارالعلوم غذر ہی کرتا ہے۔دارالعلوم کے تعلیمی اور تربیتی امور کے حوالے سے مفتی صاحب اور اس کے رفقاء بالخصوص مولانا شاہ عبداللہ اور مولانا عبدالرزاق قاضی سے نشستیں ہوتی رہتی ہیں۔دارالعلوم غذر پورے گلگت بلتستان و کوہستان میں دوسرا بڑا دینی تعلیم ادارہ ہے جہاں بہترین تعلیمی انتظام مفت میں کیا جارہا ہے۔دارالعلوم میں ایک خوبصورت لائبیریری بھی ہے جو استفادہ عامہ کے لیے اوپن رہتی۔گاہکوچ سٹی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں جن میں آغاخان ہائی سیکنڈری اسکول اور اقراء حفاظ روضۃ الاطفال سکول بہت ہی معروف اور معیار کے اعتبار سے مشہور ہیں۔آغاخان ہائی سیکنڈری اسکولز کا بہت بڑا جال ہے ضلع غذر میں جہاں جدید اور مغربی طرز تعلیم و تربیت کا بہترین اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے جبکہ اقراء روضۃ الاطفال ٹرسٹ کے بھی غذر میں کئی اسکولز ہیں جہاں طلبہ و طالبات کے لیے حفظ قرآن سے لے کر میٹرک تک بہترین تعلیم کا انتظام ہے۔اس کے باوجود بھی اسکول میں بہت ساری تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔امید ہے کہ اقراء کے کرم فرما اقراء اسکول کی بہتری کے لیے مثبت اصلاحات فوری نافذ العمل کریں گے۔گاہکوچ سٹی میں ایک وسیع پارک بھی ہے جو محکمہ فارسٹ کے زیر انتظام ہے۔گاہکوچ سٹی میں کئی نئے ہوٹل بنائے گئے ہیں جو ہر وقت سیاحوں کی آمد کے منتظررہتے ہیں۔پارک کے ساتھ ہی مونسپل لائیبریری ہے جہاں بہت ساری بہترین کتابیں دستیاب ہیں۔میں نے بھی کئی کتابیں مطالعہ کے لیے عاریتا لی جو ہنوز زیر مطالعہ ہیں۔ لائیبریرین صاحب نے تھوڑی سی گفت و شنید کے بعد خندہ پیشانی سے کتابیں عنایت کی۔ادبی اور دینی کتابوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو قارئین کو ہمہ دم دعوت مطالعہ دے رہی ہیں۔
گاہکوچ کے ساتھ سلپی ہے جو بہت ہی مختصر گاوں ہے جہاں ایک بڑی تعداد کوہستانی براداری کی آباد ہے۔گاہکوچ کے بالمقابل ہاتون کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ لمبائی کے اعتبار سے ضلع غذر کا سب سے بڑا گاوں ہے۔ ہاتون میں گورنمنٹ ڈگری کالج اور قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی کا کیمپس تعمیر کیا گیا ہے۔آج کل قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے گریجویشن کے ایگزام کنڈکٹ کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے جو خوش اسلوبی سے نمٹا رہا ہوں۔سلپی پل نے سٹی ایر یا کو وادی اشکومن سے ملایا ہے۔ سلپی پل حفیظ دور میں بنائی گئی ہے جس نے بہت سارے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔سلپی کے متصل گولوداس کا علاقہ ہے۔ یہاں اکثریت آبادی ہنزہ سے مائیگریٹڈ ہے۔گلوداس میں برلب دریا گلوداس پارک ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے انتہائی جاذب النظر ہے۔یہ پارک ایک شرابی کبابی انسان کا تھا جس نے پارک کی تزئین و آرائش کا سلسلہ شروع کیا تھا اسی دوران اللہ نے اس کو راہ راست نصیب فرمایا اور وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چاہ ماہ پر نکل گے اور پھر تبلیغی سفر میں ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔گاہکوچ سٹی سے32کلومیٹر کے فاصلے پر ’’بیرگل فش پوائنٹ‘‘ ہے۔یہاں ٹروٹ مچھلیوں کے لیے کئی پارٹیوں نے درجنوں بڑے چھوٹے تالاب بنائے ہیں۔ یہ ٹرواٹ محکمہ فشریز کی معاونت سے نمو پارہے ہیں۔ ان کو فیڈ دیا جاتاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مختلف تالابوں میں ہم نے ٹروٹ دیکھی۔ محکمہ فشریز سے بالکل ابتدائی مرحلے کی مچھلی جو بچے کی شکل میں ہوتی ہے خرید کر ان تالابوں میں ڈالاجاتا ہے پھر تین ماہ بعد دوسرے تالاب میں، پھر تین ماہ بڑے تالاب میں ڈال کر ان کی فیڈ کے ذریعے پرورش کی جاتی ہے۔ ایک ہی کلر و جسامت کی ہزاروں مچھلیاں ایک ہی تالاب میں پرورش پارہی ہوتی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کو تھوک کے حساب سے فروخت کی جاتی ہیں۔ غذر کی اوریجنل ٹروٹ مچھلیوں کے مقابلے میں یہ فارمی ٹروٹ ذائقے میں بہت کم تر ہے۔ماونٹین ٹروٹ فش فارم برگل کے ذمہ داروں کی گفتگو سے، اندازہ ہوا کہ بہت جلد یہ پوائنٹ ترقی کرجائے گا۔ ایک تو قدرتی لوکیشن خوبصورت ہے، دوم یہاں ایک چشمے کے شفاف پانی نے فارمی ٹروٹ کی پیداوار میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس فش فارم کو بنائے دو سال گذرے ہیں اگر رفتار یہی رہی تو بہت جلد فارمی ٹروٹ جی بی میں سستے داموں ملے گی۔اس سال صرف ایک گروپ نے پندرہ سو کلو ٹروٹ فروخت کیا ہے۔ چار ٹروٹ سے ایک کلو بنتا ہے۔گاہکوچ سٹی سے 34کلومیٹر کے فاصلے پر چٹور کھنڈ ہے جہاں سابق گورنرپیر کرم علی شاہ کا محل ہے۔ یہ محفل اپنی خوبصورتی اور پھولوں کی فراوانی اور جدید طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ہم نے خصوصیت کے ساتھ پیرکرم علی شاہ صاحب سے ملاقات کی۔وہ مریضوں کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔ تعویذ گنڈوں کی پانچ کتابیں سامنے رکھی ہوئی تھی۔ کسی مریض کو دم کررہے تھے تو کسی کے لیے تعویذ لکھ رہے تھے۔ جمعہ کا دن تھا، رش زیادہ تھا تو ہم نے فورا اجازت طلب کی اور اشکومن ویلی کے مین روڈ سے پیرصاحب کے محل تک جانے والے روڈ میں گاڑی نے فراٹے بھرنا شروع کیا۔ کاش مین روڈ سے پیر صاحب کے محل تک جو شاندار اور وسیع روڈ ہے وہی روڈ پورے اشکومن میں ہوتا تو ہزاروں لوگ روڈ کی تکالیف سے بچ جاتے۔اشکومن میں میرے دوست مولانا نادر شاہ نے