247

جمہوریت پسند ٹولے کااحتجاج اورشرمناک نعرے بازی۔۔۔۔۔صابر مغل

sabirmughal27@gmail.com
حالیہ الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی اور سیاسی و جمہوریت پسند پنڈتوں کی شرمناک ناکامی کے بعد ملک میں جو کچھ کیا جا چکا ہے یا جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پاکستان کا میڈیا ہر لحاظ سے ان نام نہاد سیاسی و جمہوری پنڈتوں کو ماضی کے انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کے کھیل اور قومی دولت کی لوٹ مار ،اس کی واپسی اور عوام کے بیوقوف بنانے والے دعوے جن میں اخلاقیات کا جنازہ تک نکال دیا جاتا تھاکے کلپس،بیانات وغیرہ سب کچھ دکھا، سنا اور پڑھا چکا ہے الراقم کچھ نجی مصروفیات کی بنا پر آج طویل غیر حاضری کے بعد قارئین کرام سے مخاطب ہونے جا رہا ہے، اس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا کہ عوام تمام حالات سے با خبر ہے مگر گذشتہ روز ۔پاکستان الیکشن کمیشن آفس کے سامنے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے الزامات پر احتجاج کیا گیا اس تاریخی احتجاج میں شامل دو مرکزی سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین شامل نہ تھے،اس انوکھی متحدہ اپوزیشن پر الراقم بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کئی روز سے متحیر تھا کہ گرینڈ الائنس میں شامل وہ لوگ بیٹھے نظر آئے جن کے ظاہری یکجا ہونے کا کسی شہری نے تصورنہیں کیا تھا (گو یہ سب کردار اپنے اپنے مفادات ،اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھے اور ہیں)،اس احتجاج کے دوران پاک فوج اور عدلیہ کے بارے میں جو گھٹیا ترین زبان استعمال کی گئی اس پر الراقم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کچھ پرانے موضوع پر لکھنے پر مجبور ہوا،کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور ہمیشہ ہرحکمران دیگ کے چاول دینی و مذہبی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جنہیں اتنا دکھ پی ٹی آئی کی جیت کا نہیں بلکہ انہیں اصل دکھ یہ ہے کہ وہ اس دوڑ سے باہر کیوں ہو گئے کاش وہ اس دوڑ میں شامل ہوتے کہ تحریک انصاف ان سے بھی حکومت بارے مشاورت کرتی وہ بھی کچھ مطالبات منواتے اور نہیں تو کم از کم کشمیر کمیٹی ہی ان کے پاس رہ جاتی ،اسی دکھ میں ان کا جلال کسی زہریلے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا ،وہ اپنی تقریر میں بھول گئے یا شاید جان بوجھ کر کسی پراسرار ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکشن میں PTIکی کامیابی کو منظم دھاندلی قرار دیتے ہوئے اس کا براہ راست ذمہ دار پاکستان آرمی اور اعلیٰ عدلیہ کو ٹھہرا دیا،سابق صوبائی وزیر قانون نے رانا ثنا ء اللہ بھی دور کی منطق لے آئے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پریذائیڈنگ آفیسر انچارج نہیں تھا بلکہ وہاں پر سیکیورٹی کے نام پر تعینات چار اہلکار اصل سربراہ تھے،ان بیانات سے ہٹ کر وہاں چند شر پسند عناصر کی نعرے بازی جو براہ راست چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلقہ تھی سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کے قیادت کی موجودگی میں ایسی لعنت زدہ نعرے بازی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،گو ان مظاہرین سے پاکستان پیپلز پارٹی نے لاتعلقی کا اظاہر کر دیا ہے مگر اس وقت کرائے کے ان نعرے بازوں نے جو پرچم تھام رکھا تھا وہ پیپلز پارٹی کا ہی تھا، دنیا کی کسی گندی سے گندی جمہوریت میں بھی ایسا گند دیکھنے کو نہیں ملتا،ہار جیت ایک حقیقت ہے جسے عوام مسترد کر دے وہ آئندہ بہتر کام اور عوامی بھلائی کی جانب توجہ مرکوز کر لیتا ہے مگر اپنے سیاسی نظریات جو یقیناًہر دوسری سیاسی جماعت سے متصادم ہوتے ہیں سے خود کو الگ ہی رکھتے ہیں کیونکہ اگر تمام سیاسی پارٹیوں کے نظریات،منشور ایک ہی ڈگر پر ہوں اور وہ ڈگر بھی پاکستانی طرز سیاست یا حکمرانی پر ہو پھر اسے جمہوریت نہیں بلکہ ماسی کا وہڑہ ہی کہا جائے گا،پرویز مشرف کے دور سے ہٹ کر 80کی دہائی سے لے کر2018 تک دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت سے عوام مستفید ہوتی رہی اور یہ استفادہ ایسا تھا کہ عوام پستی ،تنزلی اور گراوٹ کا مزید شکار ہوتے ہوتے چلے گئے،حالانکہ باری باری کھیلنے والے اور کے نظریاتی بھائی (جن کے بیانات ہی ملک دشمنی پر مبنی ہیں،جنہوں نے آج تک پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو تسلیم نہیں کیا)ہمیشہ گڈی گڈے کا کھیل کھیلتے رہے،عوام کو بیوقوف بناتے رہے،فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر کے عوام کو لالی پاپ دیتے رہے ،ایک دوسرے کے خلاف انتہائی نفرت انگیز اور اخلاقیات سے کوسوں دور بیان بازی کرکے قوم کو دھوکہ دیتے رہے،جمہوریت کے نام پرایک طرف عوامی استحصال اور دوسری جانب لوٹ مارجاری رکھتے رہے،ملک کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھتے رہے،ان کی غلامی کا طوق نہ صرف اپنے گلے میں ڈالا بلکہ اسی غلامی کا پٹا عوام کے گلوں میں بھی ڈال دیا،قوم کو عالمی قرض کی جال میں جکڑا کر رکھ دیا،یہ ایسے کردار ہیں جنہوں نے عام جلسوں اور بیانات کے ذریعے تو کیا مقدس ایوان میں بھی ایک دوسرے کو عوام دشمن اور سیکیورٹی رسک تک قرار دیا،جماعت اسلامی جو پانامہ پیپرز میں سب سے آگے تھی جو کہتی تھی عوام کو استحصالی قوتوں نے یر غمال بنا رکھا ہے وہ بھی انہی استحصالی قوتوں کے ہمرکاب نظر آئی ،حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ ان کے مفاداتی اکٹھ پرجب کسی ٹاک شو میں انہی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے شرکاء کو میزبان ماضی کے کلپس دکھا کر ان کی رائے مانگتا تو ان میں اتنی ڈھٹائی ،استغفراللہ،بقول خواجہ آصف کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے مگر یہاں تو کسی کے پاس نہ کچھ شرم ہے اور نہ ہی حیا(حالانکہ اسی مجمع جمہوریت میں خواجہ آصف خود بھی شریک تھے)،سب ڈھولچکی بینڈ ماسٹری کا وہ مظاہرہ کرتے رہے اور کر رہے ہیں کہ سننے والوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے مگر شرم اور حیا سے عاری اس ٹولے کے ماتھے پر شکن تک نمودار نہیں ہوتی،وہ فراموش کر بیٹھتے ہیں ان کے قائدین تو کیا خود انہوں نے اسی فورم پر بظاہر سیاسی مخالفین کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی کی،جمہوریت کہتے کس کو ہیں ؟یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لا علم ہیں ان کے نزدیک جمہوریت ہے ہی وہ جس میں وہ بر سر اقتدار ہوں یا دوسری باری لینے والے ،ان کے علاوہ سب فراڈ ،سب جمہوریت دشمن اقدامات،سب مینڈٹ مصنوعی،سب آمریت ،سب دھاندلی،سب جھرلو،حالانکہ یہ بھی ایک بد نما حقیقت ہے کہ ان کے سبھی اقدامات جمہوریت دشمن،عوام دشمن،سب دھاندلی،سب جھرلو اور آمریت کی پیداوار ہیں،وہ کیسی جمہوریت کے دعویدار ہیں ان کا اقتدار حسن جمہوریت کایوں آئینہ دار تھا کہ لوگ بھوک اور پیاس سے مرتے رہے،بچوں کی پیدائش سڑکوں پر ہوتی رہی،عوام دو وقت کی روٹی کو ترستی رہی،آئے روزمہنگائی کا طوفان انہیں بہاتا رہا،قومی قرضوں میں وہ دھنستے رہے،اسی جمہوریت کی چھتری تلے اقربا پروری عروج پر رہی،کرپشن آسمان کو چھوتی نظر آئی،قومی ادارے تباہی و بربادی کا نمونہ پیش کرنے لگے،اس الیکشن سے پہلے بھی ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور،مان لیتے ہیں دھاندلی ہوتی تھی یا اب بھی ہوئی تو اس نظام کا ذمہ دار کون تھا؟کم ازکم دس سال تو جمہوریت کا راج رہا ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی حکومت تھی تو پھر نظام کی درستگی کس کی ذمہ داری تھی؟یہ چاہتے ہی ایسا نظام ہیں جو ان کے مقاصد،مفادات ،اقتدار کے آگے حائل نہ ہو سکے،الراقم کسی سیاسی جماعت کا نہ رکن ہے نہ ترجمان ،نہ احتجاج پر اعتراض ہے انہوں نے وہ کردار ادا کیا جو ان کے اصل منشور کی عکاسی تھا وہ ایسامزید کرتے جائیں،عوام کو الو اور بیوقوف بناتے جائیں اور اگر عوام الو اور بیوقوف بنتی ہے تو مجھے کیا اعتراض اس کا خمیازہ بھی وہی بھگتتے ہیں مگر یہ کسی کو حق نہیں کہ سر عام کسی کے عوامی مینڈٹ کو پاک فوج اور عدلیہ کے ساتھ نہ صرف نتھی کر دیں بلکہ ان کے گماشتے اعلیٰ عدلیہ کے چیف کے خلاف سر عام بکواس کرتے ہوئے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں،کیا اسے جمہوریت کہا جاتا ہے ذرہ عوام کو اپنے خود ساختہ نظام جمہوریت کے تحت بنیادی حقوق فراہم کرنے والے اپنے اپنے گریبانوں میں تو جھانکیں،وہ خود اعتراف کر رہے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی کی اصل ذمہ دار اور پاک فوج ہیں اور سیکیورٹی کے نام پر تعینات اہلکار ہی اصل آفیسر تھے تو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا کیا جواز رہ جاتا ہے انہیں تو چاہیے تھا یہی احتجاج اور نعرے بازی سپریم کورٹ اور GHQکے باہر کرتے۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں