339

چترال میں رونما ہونے والی خودکشیوں کی اکثریت کی وجہ ذہنی ڈپریشن ہی ہے اوراس کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں/ڈاکٹربادشاہ منیربخاری/جی ایم خوش محمد

چترال ( نمائندہ ڈیلی چترال) چترال کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات کے بارے میں چترال پریس کلب کے زیر اہتمام ‘مہراکہ’ پروگرام میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ان اندوہناک واقعات کی موثر تدارک کے لئے سول سوسائٹی کو متحرک اور فعال بنانے اور اس سے پہلے مکمل پھیلانے اور اس انتہائی قدم کے پیچھے ان محرکات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جوآخر کار اس کا سبب بنتے ہیں۔ چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری، آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے جنرل منیجر بریگیڈیر (ریٹائرڈ ) خوش محمد خان اور اسی ادارے کے اکیڈیمک کاونسلر جلال الدین شامل نے اپنے مقالہ جات میں چترال کے حوالے سے خودکشی کے سوشل اور نفسیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور ممکنہ تجاویز بھی پیش کئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے کہاکہ معیشت ، سوشل اسٹیٹس یا عزت نفس اور ذہنی ڈپریشن خود کشی کے تین بنیادی وجوہات ہیں جبکہ چترال میں رونما ہونے والی خودکشیوں کی اکثریت کی وجہ ذہنی ڈپریشن ہی ہے اوراس کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں جن میں معاشرے کے تمام افراد کو اپنے اپنے حصے کی کردار ادا نہ کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ماہرین بشریات (anthropologist)کے مطابق معاشرے میں موجود اور رائج روایات سے ہٹ جانے کے نتیجے میں بہت ذیادہ اور سنگین قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں اور یہی حال چترال میں ہے جہاں مستحکم روایات اپنی جگہ سے ہٹ رہے ہیں اور آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ معاشرے کو ہم آہنگ (synchronize)نہ ہونے کی وجہ سے پیچیدہ مسائل جنم لے رہی ہیں۔ پروفیسر بخاری نے کہاکہ سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی مستقل اور مربوط بنیادوں پر کونسلنگ کا نظام موجود نہیں اور انہیں معاشرے ہم آہنگ بننے میں کوئی ان پٹ نہیں ملتی اور سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ والدیں اور بچوں میں ایک خلا پیدا ہوگئی ہے اور بچوں کو ضرورت کے مطابق وقت نہیں ملتی جس کے نتیجے میں وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں جو انہیں منفی ذہنیت کے دلدل میں پہنچادیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ خودکشی کا فیصلہ اچانک انسان کے ذہن میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک طویل المدت عمل ہے جس میں متاثرہ شخص کے ذہن میں منفی رجحانات جنم لیتی ہیں اور اس انجام کو پہنچاتے ہیں اور چترال میں نئی اور پرانی نسل کے درمیاں پیدا ہونے والی خلا نے اس منفی سوچ کا بیج کئی سال پہلے بودیا تھااور اب بھی وقت ہے کہ اس کے پودے کو ہم جڑوں سے اکھاڑ پھینک دیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں پسند کے خلاف شادی کے لئے بچوں اور بچیوں کو مجبور کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور کئی ایک نے سمجھوتہ کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کربیٹھے۔ چترال کے حوالے سے انہوں نے مزید کہاکہ معاشرے میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت میں کمی اور افواہ سازی کا بازار گرم کرنااور سوشل میڈیا میں بے سروپا باتوں کا چرچا کرنا بھی منفی رجحانات کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نمک کے ذیادہ استعمال نے نروس سسٹم کو متاثر کرتی ہے اور چترال میں یہ مسئلہ موجود ہے جہاں نمک کا ضرورت سے ذیادہ استعمال جاری ہے اور اس طرح ہیموگلوبین کی مطلوبہ لیول سے کم پائے جانا بھی طبی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ جلال الدین شامل نے اپنے مقالے میں نفسیاتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہاکہ جذباتی مسائل کو خودکشیوں کا سب سے بڑا محرک قرار دیا اور کہاکہ وقوعہ کے وقت حالات وواقعات دراصل triggerکا کام دیتے ہیں جبکہ اس منفی سوچ کا عمل بہت پہلے پیدا ہوا تھا اور یہ نفسیاتی پہلو کو معاشرتی پہلو سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ مایوسی کی اندونی کیفیت ہے جوکہ دماغ پہ چھاجاتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں اس منفی رجحان کو کم کرنے کے سلسلے میں رات کو وقت پہ سونے ، صبح باقاعدہ ورزش کرنے، متوازن عذا کے استعمال اور معاشرے میں افراد کے درمیان بہتر تعلق قائم رکھنے کو ضروری قرار دیا جن سے ڈپریشن پر قابوپایاجاسکے گا۔ درسگاہوں کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ سوچ کی تبدیلی میں دنیا کو نئی زاوئیے سے دیکھنے کے قابل بنانے ، معاشرے میں صرف چند ایک پیشوں کو قابل عزت قرار دینے سے گریز کرنے پر زور دیا کیونکہ جب ایک بچہ کسی خاص پیشے کی طرف میلان رکھنے کے باوجود اسے اختیار نہ کرنے پر ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے اور والدین کا بچوں کے ساتھ بے جا توقعات وابستہ کرنے کو بھی ڈپریشن کا ذمہ دار دیا جبکہ گھر کے اندر والدین کا بچوں کے ساتھ روایتی اندازمیں سلوک کی بجائے اور دوستانہ انداز اختیار کرنے پر زور دیا۔ جلال الدین شامل نے زور دے کرکہاکہ اسلامی اقدار کے بار ے میں درس دینے کے ساتھ روحانی روشنی کی تلاش کے لئے اسلامی تصوف سے بھی بچوں کوروشناس کرانے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے سکولوں میں ٹائم منیجمنٹ کے ساتھ ساتھemotion/behaviourمنیجمنٹ کی تربیت پر زور دیا۔ بریگیڈیر (ریٹائرڈ ) خوش محمد خان نے مقالہ جات اور حاضرین کے طرف سے پیش کردہ تجاویز کی تلخیص پیش کرتے ہوئے کہاکہ اسلام میں خودکشی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اوراسے امانت میں خیانت کہا گیا ہے کیونکہ یہ زندگی ایک عظیم الشان ذات کی طرف سے امانت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاص ذہنی کیفیت اس کا ذمہ دار ہے جوکہ ڈپریشن کو جنم دے کر خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق خودکشی کے رجحان کی تدارک عین ممکن ہے کیونکہ جن ممالک میں کوششیں ہوئیں ، وہاں اس کے تعداد میں نمایان کمی لائی گئی اور منظم کوششوں کے بہتر نتائج برامد ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے تناظر میں اسلامی تعلیمات پر اس کے اصل روح کے مطابق عمل ہوں تونوجوانوں کی جدیدیت کو integrateکرنے میں مدد ملے گی اور مادیت پرستی کی بیخ کنی ہوگی جوکہ امتحانات میں نمبروں کی کمی ، عشق ومحبت میں ناکامی، کسی خاص پیشے سے وابستگی میں ناکامی سب مادیت پرستی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ماڈرن ٹیکنالوجی کے غیر دانشمندانہ استعمال سے معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا ہے اور ٹی۔ وی کے غیر حقیقی ڈرامے اور موبائل فونز معاشرے میں بے راہ روی پھیلا نے کا موجب بنتے ہیں۔ انہوں نے خاندانی نظام کے احیاء کی ضرورت پر زور دیا جس کے کمزور پڑنے سے منفی رحجانات کا بند ٹوٹ جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے وجوہات کا کھوج لگانا کسی عام ریسرچ کے اسکوپ سے باہر ہے جس کے ایکسپرٹ گروپ کی ضرورت ہے جس میں ہر شعبے کے ماہریں شامل ہوں جوکہ علماء کرام، سوشل ورکر، اساتذہ، وکیل، صحافی اور دوسرے شامل ہیں۔ اس سے قبل شیر عظیم(مداک لشٹ ) ، محکم الدین (صحافی)، جہانگیر جگر (صحافی)، عنایت اللہ اسیر (ایون)، پروفیسر شفیق احمد اور پروفیسر فدا (گورنمنٹ کالج چترال ) نے تجاویز پیش کی اور چترال میں دارلامان کے قیام، قانونی مدد کی فراہمی، معاشرے میں بچیوں کو بچوں کے برابر عزت اور مقام دینے، موبائل فون کے بے جا استعمال، امتحانات میں نقل کا موثر روک تھام ، والدین کا بچوں کو ذیادہ سے ذیادہ توجہ دینے اور پولیس کی طرف سے خود کشی کے ہر کے ایک واقعے کی مکمل انکوائری کی تجاویز پیش کی۔ اس موقع پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے تمام مقالہ نگاروں سمیت شرکاء کاشکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ عیدالاضحٰی کے بعد خودکشی کے بارے میں ہفتہ آگہی منائی جائے گی جس میں پریس کلب دوسرے تمام اداروں بشمول چترال یونیورسٹی کی مدد اور معاونت حاصل کی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں