450

منظر نگاری قشقار

اشرو ملنگ

بادل جھومتے ہوئے

پربتوں کو چومتے ہوئے

آہستہ آہستہ گھومتے ہوئے

وادی کے دامن میں گرتے ہوئے

سنبھل جاتے ہیں پھسلتے ہوئے

زمین کی آغوش میں بیٹھتے ہیں

دریاؤں سے ہونٹ لگاتے ہیں

مستی میں ڈوب جاتے ہیں

عالمِ سرور میں کھو جاتے ہیں

واپس پھڑپھڑاتے ہیں

فضاؤں میں اُڑ جاتے ہیں

ہوائیں چلنے لگتے ہیں

پھولوں سے ہاتھ لگاتے ہیں

شبنم کو رلاتے ہیں

خوشبو لے کے نکل جاتے ہیں

درخت بھی جھکتے ہیں

سلام پیش کرتے ہیں

دریا بھی شور مچاتا ہے

خموشی سے بہتا ہے

فلک بھی تماشا میں محو ہے

ہر کوئی خدا میں محو ہے

مرغے اذان دے رہے ہیں

پرندے چہچہا رہے ہیں

غافل غفلت سے اٹھتا ہے

جب صبح کا سماں ہوتا ہے

کیا قیامت خیز ہوتا ہے

دل کی نگاہ تیز ہوتا ہے

ہر کوئی تقدیر میں خوش ہے

خواب میں تعبیر میں خوش ہے

جنت سے یہ کم تو نہیں ہے

دیکھ کہیں صنم تو نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں