274

ساحل نے بچوں پر جنسی تشدد کے اعدادوشمار پر مبنی ’’ساحل ظالم اعداد 2018‘‘ کی ششماہی رپورٹ جاری کر دی 

اسلام آباد : ساحل نے بچوں پر جنسی تشدد کے اعدادوشمار پر مبنی ’’ساحل ظالم اعداد 2018‘‘ کی ششماہی رپورٹ جاری کر دی ۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے جون تک2322 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس حساب سے روزانہ 12 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پچھلے سال کے انہی مہینوں کی نسبت اس سال ان واقعات میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعات پاکستان کے چاروں صوبوں ، اسلام آباد،آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان اور فاٹا سے رپورٹ ہوئے ہیں۔یہ پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں پر جنسی تشدد کے اعداد و شمار کے حوالے سے واحد رپورٹ ہے جسے مرتب کرنے کے لئے کل 91 قومی اورعلاقائی اخبارات کی جانچ پڑتال کی گئی۔سال 2018 کی پہلی ششماہی کے دوران ہونے والے واقعات میں بچوں کے اغوا کے 542 ، زیادتی کے360 ، اجتماعی زیادتی کے 92، بدفعلی کے381 اور اجتماعی بد فعلی کے 167 ،زیادتی کی کوشش کے 224 اور بد فعلی کی کوشش کے 112 ، بچوں کی شادیوں کے 55 ،بچوں کی گمشدگی کے 236 واقعات اور بدفعلی یا زیادتی کے بعد قتل کے57 واقعات پیش آئے۔رواں سال جنوری سے جون کے دوران رپورٹ ہونے والے 2322 واقعات میں 1298 (56فیصد) بچیوں جبکہ 1024(44فیصد ) واقعات میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ساحل ظالم اعداد کے مطابق 11سے15 سال کے 622 جبکہ 6 سے 10 سال کے درمیان کی عمر والے 526 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا۔ صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ واقعات پنجاب سے رپورٹ ہوئے جو کہ مجموعی واقعات کا 65فیصد ہیں جبکہ سندھ سے 25فیصد ، بلوچستان سے 2فیصد، خیبر پختونخواہ سے 3فیصداور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے بھی 3فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔ آزاد کشمیر سے 21جبکہ گلگت بلتستان سے 2 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ساحل کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کل واقعات کا 74فیصد جبکہ شہری علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کل واقعات کا 26فیصد ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس نے 89فیصد واقعات کو رجسڑڈ کیا جبکہ 32 واقعات کی رپورٹ پولیس نے درج کرنے سے انکار کیا 17 واقعات پولیس کے پاس درج نہیں کروائے گئے جبکہ 196 واقعات کے بارے میں اخبارات میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ساحل کے سینئر پروگرام آفیسر میڈیا ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہاکہ اس سال 8 فروری کو قصور میں معصوم زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کئے جانے والے واقعے کے بعد بڑی تعداد میں واقعات سامنے آنا شروع ہوئے۔اس واقعے کے بعد لوگوں نے ایسے واقعات کو چھپانے کے بجائے سامنے لانے اور انصاف کے حصول کے لیے کوششیں کئے۔ جس کا اہم کریڈٹ میڈیا کو جاتا ہے کیوں کہ میڈیا نے اس حوالے سے عوام میں شعور و آگہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں بچوں پر تشدد کو ایک بہت اہم مسئلہ تسلیم کیا اور اس کی روک تھام اور سد باب کے لئے پولیس کو مزید بہتر کام کرنے کی ہدایت بھی کی۔ بچوں کے تحفظ کے لئے حکومت کے ہر اچھے اور مثبت اقدام کا ہم بھر پور ساتھ دیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں