نماز فجر کے بعد گیسٹ ہاؤس کے صحن سے کالام پر نظرپڑی۔ تو عجیب منظر تھا ، پہاڑ ، جنگلات اور عمارات سب حسین لگ رہے تھے ۔ اُبھرتی سورج کی کرنیں پہاڑ کی چوٹیوں پر کھڑے تناور درختوں کی آوٹ سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔ موسم بہت سہاناتھا ۔ ایک طرف کالام کی بڑی بڑی عمارتیں ، ہوٹلز اور دوسری طرف جنگلات ، دریاء کے نظارے شہر اور دیہات کا حسین امتزاج پیش کر رہے تھے ۔دریائے کالام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ جس کے کناروں پردور تک چارپائیاں قطار کی شکل میں رکھی گئی تھیں ۔ جن پر بیٹھ کر
کالام شہر کو دیکھ کر قدرتی طور پر اس کے ساتھ اُنس و محبت کی ایک جذباتی لہر دل میں دوڑ رہی تھی ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی ۔ کہ یہاں ایک چھوٹاچترال بھی آباد ہے ۔ جس کی آبادی اب بڑھتے بڑھتے تقریبا 7ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔ یہ چھوٹا چترال کالام باز ار سے 9کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ جو کہ اُشو کے نام جانا جاتا ہے ۔ جسے چترال میں عُرف عام میں اُژو بشقار کہا جاتا ہے ۔ یہاں آج بھی چترالی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔لاسپور ویلی سے اُن کی گہری رشتے داریاں ہیں ۔ اس برادری کے معروف شخصیت سابق ناظم فریداللہ سے اُن کی رہائشگاہ واقع اُشو میں پچھلے دورے کے موقع پر ملنے کا اتفاق ہوا تھا ۔ جس کے مطابق ان کے اباو اجداد چترال کے مقام تورکہو زیور گول سے تعلق رکھتے تھے ۔ جہاں سردیوں میں شدید برفباری کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں ۔ اور زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ۔ شدید موسمیاتی
ہمارے اس ٹور میں اوشو کے چترالی باشندوں سے ملاقات کا کوئی پروگرام شامل نہیں تھا ۔ یہ معلومات پچھلے ٹور میں حاصل کئے گئے تھے ۔ اس لئے قارئین کی دلچسپی کے لئے مختصرا یہاں ذکر کیا گیا ہے ۔
ہم نے جی بھر کر ناشتہ کیا ۔ کچھ دوستوں نے حلوہ پوڑی کی خواہش کی ، کچھ نے سری پائے اور کچھ کی ڈیمانڈچنے اور آملیٹ کے تھے ۔ گویا ہوٹل والے کی عید ہو گئی تھی ۔ کالام کی ٹھنڈی ہوائیں حسین نظارے اور صبح کامن پسند ناشتہ ، ساتھیوں کے تبصرے اور قہقہے ، اوہ کیا کہنا ، مزا آگیا ۔ اُسی ٹیبل پرشہریار بیگ نے بتایا
۔ کہ ڈپٹی کمشنر بٹگرام راجہ فضل خالق صاحب نے بٹگرام میں اپنے ہاں قیام کی دعوت دی ہے ۔ ہمیں کاغان ، ناران جانے کیلئے ویسے بھی اُسی راستے پر ہی جانا تھا ۔ اور فاصلہ بھی کافی تھا ۔ پس ہم نے دعوت قبول کر لی ۔
ہم دیگر سیاحوں کی نسبت اُلٹ راستے سے چل پڑے تھے ۔ عام طور پر ملک کے دوسرے شہروں سے آنے والے سیاح مینگورہ ، بحرین اور مدین سے ہوتے ہوئے کالام اور پھر مہوڈند کا سفر کرتے ہیں ۔ جبکہ ہم کُمراٹ کے پہاڑی راستے سے کالام پہنچ کر وہاں سے بحرین اور مدین کی طرف جارہے تھے ۔کالام سے مدین اور بحرین کی سڑک ہنوز پختہ نہیں ہوا ۔ لیکن سڑک پر اتنا کام ہو چکا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ کچھ مقامات پر کام جاری تھا ۔ اگر سڑک کا یہ کام موجودہ حکومت میں مکمل ہوجا تا ہے ۔ تو کالام میں سیاحوں کیلئے تل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی ۔ اور سیاحتی آمدن میں غیر معمولی اضافہ ہو گا ۔ ہم ایک طرف علاقے کے حسن اور تعمیرات دیکھ رہے تھے ۔ اور دوسری طرف 2010کے سیلاب میں اس علاقے میں ہونے والی تباہی پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ کہ اُس وقت سیلاب نے کس طرح کارباری مراکز ، ہوٹلوں اور رہائشگاہوں کو برباد کیا ۔ اور عین سیاحتی موسم میں لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے ۔
مدین سے ہم نے خوازہ خیلہ کی راہ لی ۔اور شانگلہ پاس کے راستے الپوری ،بشام اور تھا کوٹ سے ہوتے ہوئے شام کے وقت بٹ گرام ڈی سی ہاؤس پہنچ گئے ۔ ڈپٹی کمشنر راجہ فضل خالق ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ انہوں نے پُر تپاک استقبال کیا ۔ اور ہم دیرتک مختلف موضوعات پر گپ شپ لگاتے رہے ۔ راجہ فضل خالق نہایت نفیس شخصیت کے مالک اور نہایت مہمان نواز ہیں ۔ مجھے ایک مرتبہ پہلے بھی اُن کے مہمان بنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اُس وقت آپ سکردو کے ڈپٹی کمشنر تھے ۔ اور ہم چترال کے مختلف ایل ایس اوز کے 60 مردو خواتین عہدہ دار