284

چوتھی قسط۔۔۔۔وادی وادی گھوم ۔۔۔ محکم الدین اویونی 

بٹگرام سے ہماری منزل کاغان وادی تھی ۔ جس میں ناران ہمارے ٹور کا مرکزی مقام تھا ۔ گذشتہ سال کے ٹور کے دوران ہم ناران کی سیاحت سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکے تھے ۔ ہم صبح سویرے نکلے ، راستے میں جب ہم ایک ریسٹوران میں ناشتے کیلئے رُکے تو معلوم ہو ا ۔ کہ ہم بھٹک گئے ہیں ۔ اور شارٹ کٹ راستے سے کافی دور نکل گئے ہیں ۔ یہ ریسٹوران ناشتے کیلئے بہت مشہور تھا۔ اور اس کا مالک ایک جہان دیدہ اُدھیڑ عمر شخص تھا ۔ اُس نے ہمارے لئے اپنے عملے کو خصوصی ہدایات دیں ۔ اور مزید اسپیشل ناشتہ تیا ر کروایا۔ ساتھیوں نے ناشتے کا بھر پور لطف اُٹھایا ۔ اور ہوٹل منیجر اور ہوٹل کی تعریف کی ۔ ہوٹل منیجر تحریک انصاف کا جذباتی سپورٹر تھا ۔ کھڑے کھڑے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر کرپشن کرنے اور پاکستان کو تباہ کرنے کے الزامات لگا ئے ۔اور ہمارے سامنے اپنی دل کی بڑاس نکال دی ۔ ہمارے جنرل سیکرٹری عبد الغفار جو مسلم لیگ ن کے جان فدا سپورٹر ہیں ۔اور سیاسی بحث و سوشل میڈیا میں نواز شریف کے اطلاعاتی ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہاں بالکل خاموش رہے ۔ اور احمق را خاموشی کا فارمولا اپنایا ۔ ہمیں ہوٹل منیجر نے جس راستے کی       نشاندہی کی تھی ۔ واپس وہی راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ تقریبا دو گھنٹے کی مزید مسافت کے بعد ہم سبزہ زاروں سے ہوتے ہوئے بالاکوٹ میں داخل ہو چکے تھے ۔ بالا کوٹ کاغان ویلی کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے ۔ جو گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس سر زمین پر سکھوں کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید نے اپنے ساتھیوں سمیت جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ اور اپنے خون سے بالاکوٹ کی زندگیوں کے چراغ روشن کئے ۔ یہ ایک جادوئی نظارہ رکھتا ہے ۔ 2005کے زلزلے نے یہاں بہت زیادہ تباہی مچائی تھی ۔ ہزاروں کی تعداد میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں ۔ اور پورا بالا کوٹ شہر سمیت اطراف کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے ۔ صرف ایک سکول میں تین سو بچے عمارت کے ملبے تلے دب کر جان بحق ہوئے تھے ۔ لیکن انسان بھی کیا چیز ہے ۔ اسے بہت جلد گزرے حالات کو بھول جانے کی عادت ہے ۔ آج پھر اُسی طرح زندگی رواں دواں ہے ۔ جس طرح زلزلے سے پہلے جاری تھی ۔ ہم نے دریاکنہار کے اوپر تعمیر شدہ بالاکوٹ پُل جو شہر کو دو حصوں کو ملاتا ہے ۔ عبور کرکے ایک خاص اونچائی پر گاڑی روک لی ۔ تاکہ شہر کی تصاویر بنائی جا سکیں ۔ سب نے یہ مناظر محفوظ کئے ۔ اور شہر کی سابقہ تباہی اور موجودہ ترقی پر تبصرے کئے ۔ بالاکوٹ کا ہر منظر دل و دماغ پر سحر انگیز جادوئی اثر چھوڑ رہا تھا ۔ ہم بتدریج کاغان ناران کے قریب تر ہوتے جارہے تھے ۔ راستے میں مختلف فاصلوں پر پہاڑوں کے سینوں سے پھوٹ کرگرنے والی آبشاریں اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے ۔ چشموں کے ٹھنڈ ا یخ پانی میں جوس اور دیگر مشروبات کی بوتلیں سیاحوں کے انتظار میں تیار رکھی گئی تھیں ۔ کئی جگہوں پر ندیوں کے پانی کے اندر چارپائیوں پر مردو خواتین سیاح بے پرواہ ٹھنڈے پانی کے مزے لے رہے تھے ۔ تو کچھ سیاح دس بیس روپے دے کر آبشار کے ساتھ لگی کُرسی پر بیٹھے تصاویر بنا رہے تھے ۔ ہمارے دوستوں نے اس عروسی کُرسی پر بیٹھ کر تصویریں بنانے کا شوق پورا کیا ۔ اب ہم کاغان کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ اور اُس کے آثار شروع ہو چکے تھے ۔ لیکن ہمارا ارادہ ناران پہنچنے کا تھا ۔ پس کاغان میں رکنے کی بجائے ہمارا ڈرائیور گاڑی کو ناران کی طرف سر پٹ دوڑانے لگا ۔ بالا خر دور سے ہمیں ہوٹلوں کا وہ شہر نظر آیا جسے ناران کہا جاتا ہے ۔ ناران کا یہ شہر سیاحوں سے آباد ہے ۔ اور جھیل سیف الملوک کاناران پر بہت بڑا احسان ہے ۔ کہ اُن کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کا روزگار چل رہا ہے ۔ ہم نے گاڑی روکی
۔ محبت بھری نظروں سے یہ شہر دیکھا ۔ جو دُنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے سیاحوں کو اپنے دل میں جگہ دے رہا تھا ۔ ساتھیوں نے مختلف زاویوں سے تصویر کشی کی ۔ اور ہم ناران کے چھوٹے شہر میں گُم ہو گئے ۔ طویل سفر اور کھانے کا ٹائم گزرنے کی وجہ سے بھوک بھی بڑی ظالم لگ رہی تھی ۔ حسب معمول پہلے کھانے پر توجہ دی گئی ۔ اور ایک ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا گیا ۔ ناران کے ریسٹوران میں کھانوں کا مزا ہی کچھ اور ہے ۔ رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کئے خواتین سیاح علاقے کا حسین و جمیل منظر اور خوش ذائقہ کھانا ۔ گویا سونے پر سہاگہ کے مصداق تھا ۔ لیکن ابھی دھوپ کی تپش زیادہ تھی اور زیادہ تر سیاح جھیل سیف الملوک کی طرف جا اور آ رہے تھے ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم جھیل سیف الملوک دیکھنا چاہتے تھے ۔ اور اپنی ہی گاڑی ہائیس میں وہاں جانا چاہتے تھے ۔ لیکن بتایا گیا ۔ کہ جیپ کے علاوہ کوئی سروس کامیاب نہیں ۔ کیونکہ سڑک نہایت ہی خراب اور خطرناک ہے ۔ اور بہت اونچائی پر ہے ۔ ہمارا ڈرائیور تو وہاں جانے کیلئے تیار تھا ۔ لیکن ہم نے فیصلہ کیا ۔ کہ مقامی آدمی کو فائدہ دیا جائے ۔ ایک جیپ ڈرائیور سے ہماری بات ساڑھے تین ہزار پر طے ہو گئی ۔ اور ہم جھیل سیف الملوک کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جیپ دیودار کے درختوں کے سائے سے ہوتے ہوئے خوشنما بلند و بالا ہوٹلوں کے سامنے سے گزرتی سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی پہاڑ کی طرف دوڑنے لگی ۔ یہاں کئی تھری سٹار اور فائیو سٹار ہوٹلز موجود ہیں ۔ جن کی طرف متوسط آمدنی والے سیاحوں کا رخ کرنا اپنے پر جلانے کے مترادف ہے ۔ تقریبا پندرہ منٹ سفر کرنے کے بعد پکی سڑک ختم ہو گئی ۔ تو ہمیں ایک مرتبہ چترال کی سڑکیں یاد آ گئیں ۔ اس سڑک کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا ۔ کہ مقامی انتظامیہ ، جیپ مالکان اور ڈرائیور برادری کا دانستہ طور پر اس سڑک کو پختہ نہ کرانے میں کردار شامل ہے ۔ تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار مل سکے ۔ ہم جب جھیل کی طرف جا رہے تھے ۔تو سینکڑوں کی تعداد میں جیپ سیاحوں کو لے کر جھیل سے ناران شہر کی طرف آ اور جارہے تھے ۔ بالاخر ہم درجنوں موڑ کاٹتے ہوئے آخری اونچائی پر پہنچ گئے ۔ جس کی بلندی 10500فٹ تھی ، جہاں سے جھیل پر نظر پڑی۔ جھیل کے اطراف میں لوگوں کا ایک جم غفیر تھا ۔ جو اس کے سرد ہواؤں سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ اور ملکہ پربت دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے ۔ جھیل کے اندر کشتیوں پر بیٹھ کر سیاح اُس کی اُبھرتی لہروں کا مزا لے رہے تھے ۔ تو کئی جھیل نظارے میں بنی ریسٹوران میں کھانوں کا مزا اور کولڈ ڈرنکس کے چسکے لیتے ہوئے اس خوبصورت ماحول پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ جھیل سیف الملوک وادی کاغان کی رومانوی داستانوں کی حامل خوبصورت جھیل ہے ۔ جو شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی لازوال محبت کی یادگار ہے ۔ اگر شاہجہاں نے تاج محل بنا کر اپنی محبت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ۔ تو ناران میں قدرت نے پری ذات بدیع الجمال اور شہزادہ سیف الملوک کی محبت کو زندہ رکھنے کیلئے جھیل سیف الملوک کو وہ مقام دیا ۔ کہ سالانہ لاکھوں سیاح اس جھیل کی سیر کیلئے آتے ہیں ۔ اور محبت کے انمول یاد گار کو اپنے دلوں اور کیمروں میں محفوظ کرکے چلے جاتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو آج بھی یہ یقین ہے ۔ کہ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال آج بھی پہاڑی غار میں زندہ ہیں ۔ جنہوں نے دیو ہیکل جن سے چھپ کر پہاڑ کے غار میں پناہ لے رکھی تھی ۔ 
ہم نے جھیل کے سبزہ زار میں ریفرشمنٹ کی ، تصاویر بنائیں ۔ اور جھیل و سیاحوں کا خوب نظارہ کیا ۔ اور بازار میں مختلف ہنڈی کرافٹس وغیرہ دیکھے ۔ جو کاغان ناران وادی کی بنی ہوئی تھیں ۔ جھیل سیف الملوک اگرچہ ایک خوبصورت جھیل ہے ۔ مگر یہاں بھی صفائی کا انتظام مناسب نہیں ہے ۔ اس لئے سبزہ زار اور جھیل کے پانی و اطراف میں کچرے بکھرے نظر آتے ہیں ۔ جو ہماری روایتی بے حسی اور ہماری حکومتوں خصوصا ٹورزم کارپوریشن کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم تقریبا ڈیڑھ گھنٹے جھیل میں گذارنے کے بعد واپس اپنی جیپ کے پاس آگئے ۔ جہاں سے واپس ناران وادی میں اُتر گئے ۔ شام ہونے والی تھی ۔ اور لوگ پرندوں کی طرح اپنے لئے گھونسلے تلاش کر رہے تھے ۔ ہمارے دو دوستوں نے جلد ہی مناسب ہوٹل کا انتظام کر لیا ۔ اور ہم نے ہوٹل میں پناہ لی ۔ 
ناران کی راتیں بہت خوبصورت اور رومانوی ہوتی ہیں ۔ برقی روشنیاں بازاروں، ہوٹلوں ، ریسٹورانوں کو چار چند لگا دیتی ہیں ۔ تو بناؤ سنگار کی حامل سیاح پریاں اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہنے دیتے ۔ ناران کی حسین و جمیل شام میں پیارے دوست بشیر حسین آزاد سے رہا نہ گیا، انہوں نے حسب روایت اپنی طرف سے پُر خلوص مہمان نوازی کے جھنڈے یہاں بھی گاڑ دیے ۔دوستوں نے ٹھنڈ کے باعث صرف مچھلی ڈش کی فرمائش کی ۔ لیکن جس ہوٹل میں ہم گئے ۔ اُس میں ہر ڈش کا اپنا ہی مزا تھا ۔ سوپ سے بھوک بھڑکانے کے آدھ گھنٹے بعد جب فرمائشی ڈش آئے ۔ تو اپریشن ردالفساد کی یاد تازہ ہوگئی اور تابڑ توڑ حملے ہوئے ، لیکن بھوک کے دُشمنوں کا مکمل صفایا کرناکسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ناران کی رونقین اور لذیز و خوش ذائقہ کھانے ۔ واہ کیا کہنا ۔ یہ کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے پورے خلوص سے دل کھول کر بشیر حسین آزاد کو دُعا دی ۔ اور کھانے کے بعد ناران کے بازار میں آوارہ گردی کیلئے نکل پڑے ۔ آنکھوں کے سامنے بہار کی رنگین تتلیوں کی طرح پھرتی طلسماتی حسینوں کو دیکھتے رہے اور دل و دماغ سے گُناہ کماتے رہے ۔ میں اور بھائی شاہ مراد بیگ گپ شپ میں اتنے مدہوش ہو گئے تھے ۔ کہ جب ہوش آیا تو دیکھا ۔ کہ ایک ہوٹل کے سامنے بہت سارے ٹورسٹ کے ساتھ ہم بھی بُت بنے کھڑے ہیں ۔ اور ہوٹل کے شیش محل نما کمرے میں ایک خاتون روبوٹ بنی ایکٹنگ کرتی سیاحوں کو اپنے ہوٹل کی طرف راغب کر رہی تھی ۔ وادی کا حسن دیکھ کر آنکھیں تھیں کہ نیند کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔ اسی کشمکش میں بالا خر ہمیں ہوٹل کے بیڈ کا سہارا لینا ہی پڑا ۔ اُس کے بعد کیا ہوا ، یہ ناران کی حسین وادی ، سیاح تتلیاں اور لوگ ہی بہتر جانتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں