بٹگرام سے ہماری منزل کاغان وادی تھی ۔ جس میں ناران ہمارے ٹور کا مرکزی مقام تھا ۔ گذشتہ سال کے ٹور کے دوران ہم ناران کی سیاحت سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکے تھے ۔ ہم صبح سویرے نکلے ، راستے میں جب ہم ایک ریسٹوران میں ناشتے کیلئے رُکے تو معلوم ہو ا ۔ کہ ہم بھٹک گئے ہیں ۔ اور شارٹ کٹ راستے سے کافی دور نکل گئے ہیں ۔ یہ ریسٹوران ناشتے کیلئے بہت مشہور تھا۔ اور اس کا مالک ایک جہان دیدہ اُدھیڑ عمر شخص تھا ۔ اُس نے ہمارے لئے اپنے عملے کو خصوصی ہدایات دیں ۔ اور مزید اسپیشل ناشتہ تیا ر کروایا۔ ساتھیوں نے ناشتے کا بھر پور لطف اُٹھایا ۔ اور ہوٹل منیجر اور ہوٹل کی تعریف کی ۔ ہوٹل منیجر تحریک انصاف کا جذباتی سپورٹر تھا ۔ کھڑے کھڑے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر کرپشن کرنے اور پاکستان کو تباہ کرنے کے الزامات لگا ئے ۔اور ہمارے سامنے اپنی دل کی بڑاس نکال دی ۔ ہمارے جنرل سیکرٹری عبد الغفار جو مسلم لیگ ن کے جان فدا سپورٹر ہیں ۔اور سیاسی بحث و سوشل میڈیا میں نواز شریف کے اطلاعاتی ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہاں بالکل خاموش رہے ۔ اور احمق را خاموشی کا فارمولا اپنایا ۔ ہمیں ہوٹل منیجر نے جس راستے کی
۔ محبت بھری نظروں سے یہ شہر دیکھا ۔ جو دُنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے سیاحوں کو اپنے دل میں جگہ دے رہا تھا ۔ ساتھیوں نے مختلف زاویوں سے تصویر کشی کی ۔ اور ہم ناران کے چھوٹے شہر میں گُم ہو گئے ۔ طویل سفر اور کھانے کا ٹائم گزرنے کی وجہ سے بھوک بھی بڑی ظالم لگ رہی تھی ۔ حسب معمول پہلے کھانے پر توجہ دی گئی ۔ اور ایک ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا گیا ۔ ناران کے ریسٹوران میں کھانوں کا مزا ہی کچھ اور ہے ۔ رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کئے خواتین سیاح علاقے کا حسین و جمیل منظر اور خوش ذائقہ کھانا ۔ گویا سونے پر سہاگہ کے مصداق تھا ۔ لیکن ابھی دھوپ کی تپش زیادہ تھی اور زیادہ تر سیاح جھیل سیف الملوک کی طرف جا اور آ رہے تھے ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم جھیل سیف الملوک دیکھنا چاہتے تھے ۔ اور اپنی ہی گاڑی ہائیس میں وہاں جانا چاہتے تھے ۔ لیکن بتایا گیا ۔ کہ جیپ کے علاوہ کوئی سروس کامیاب نہیں ۔ کیونکہ سڑک نہایت ہی خراب اور خطرناک ہے ۔ اور بہت اونچائی پر ہے ۔ ہمارا ڈرائیور تو وہاں جانے کیلئے تیار تھا ۔ لیکن ہم نے فیصلہ کیا ۔ کہ مقامی آدمی کو فائدہ دیا جائے ۔ ایک جیپ ڈرائیور سے ہماری بات ساڑھے تین ہزار پر طے ہو گئی ۔ اور ہم جھیل سیف الملوک کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جیپ دیودار کے درختوں کے سائے سے ہوتے ہوئے خوشنما بلند و بالا
ہم نے جھیل کے سبزہ زار میں ریفرشمنٹ کی ، تصاویر بنائیں ۔ اور جھیل و سیاحوں کا خوب نظارہ کیا ۔ اور بازار میں مختلف ہنڈی کرافٹس وغیرہ دیکھے ۔ جو کاغان ناران وادی کی بنی ہوئی تھیں ۔ جھیل سیف الملوک اگرچہ ایک خوبصورت جھیل ہے ۔ مگر یہاں بھی صفائی کا انتظام مناسب نہیں ہے ۔ اس لئے سبزہ زار اور جھیل کے پانی و اطراف میں کچرے بکھرے نظر آتے ہیں ۔ جو ہماری روایتی بے حسی اور ہماری حکومتوں خصوصا ٹورزم کارپوریشن کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم تقریبا ڈیڑھ گھنٹے جھیل میں گذارنے کے بعد واپس اپنی جیپ کے پاس آگئے ۔ جہاں سے واپس ناران وادی میں اُتر گئے ۔ شام ہونے والی تھی ۔ اور لوگ پرندوں کی طرح اپنے لئے گھونسلے تلاش کر رہے تھے ۔ ہمارے دو دوستوں نے جلد ہی مناسب ہوٹل کا انتظام کر لیا ۔ اور ہم نے ہوٹل میں پناہ لی ۔
ناران کی راتیں بہت خوبصورت اور رومانوی ہوتی ہیں ۔ برقی روشنیاں بازاروں، ہوٹلوں ، ریسٹورانوں کو چار چند لگا دیتی ہیں ۔ تو بناؤ سنگار کی حامل سیاح پریاں اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہنے دیتے ۔ ناران کی حسین و جمیل شام میں پیارے دوست بشیر حسین آزاد سے رہا نہ گیا، انہوں نے حسب روایت اپنی طرف سے پُر خلوص مہمان نوازی کے جھنڈے یہاں بھی گاڑ دیے ۔دوستوں نے ٹھنڈ کے باعث صرف مچھلی ڈش کی فرمائش کی ۔ لیکن جس ہوٹل میں ہم گئے ۔ اُس میں ہر ڈش کا اپنا ہی مزا تھا ۔ سوپ سے بھوک بھڑکانے کے آدھ گھنٹے بعد جب