335

صدا بصحرا ۔۔۔۔۔۔ تاجدارمدینہ کی سلطنت۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

عمرہ اور حج کرنے والوں کے لئے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر 40 نمازیں ادا کرنے کی خصوصی فضیلت ہے اس پر شفاعت کبریٰ کی بشارت دی گئی ہے اس لئے حرمین شریفین کا ہر مسافر مدینہ طیبہ میں کم از کم 8 دن گزارنے کا پابندہے مدینہ میں داخل ہونے والی گاڑی جب مدرسۃ البنات لا اھلیہ کی عمارت کے سامنے سے گزرتی ہے تولا محالہ وہ منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جب نبی کریم ﷺ ہجرت کے سال مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو بچیوں نے اس مقام پرآکر ایک نظم گاتے ہوے حضور کا استقبال کیا تھا اس مقام پر بچیوں کا مدرسہ تعمیر کر کے اس کی تاریخی حیثیت کو محفوظ کیا گیا ہے مسجد نبوی کے مینارنظرآنے کے بعد پہلا خیال یہ آتا ہے کہ کب باب السّلام سامنے ہو مشتا قانِ دید کو آگے بڑھ کر سلام پیش کرنے کا شرف حاصل ہو مسجد نبوی کے 44 دروازے ہیں پہلا دروازہ باب السّلام ہے 40واں دروازہ بالِ جبریل ہے باب اسّلام سے باہر نکل کر بائیں طرف دیکہیں تو بالِ جبریل آ تا ہے یہ روضہ پاک کے جنوب کی طرف ہے یہاں خاتونِ جنّت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ غنہا کے حجرے کو راستہ جاتا ہے امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی پرورش اس حجرے میں ہوئی حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہی گھر تھا گھر کے پیچھے اصحاب صّفہ کا چبوترہ آتا ہے ، چبوترہ اور روضہ پاک کے درمیاں وہ مقام ہے جہاں نبی کریمﷺ تہجد اور نفل نمازیں پڑھا کرتے تھے یہ حضور کا مصلّےٰ تھا آپ کے لاڈلے نواسے حسنؓ اور حسینؓ یہیں پر بچپن کے کھیل کھیلتے تھے اور حضورﷺ سجدے میں جاتے تو گردن پر سواری بھی کرتے لاڈ اور پیار کا یہ عالم دیکھنے کے لائق ہوتا تھا احادیث میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں یہ مسجد نبوی کا صحن تھا جس کے شمالی کونے میں اذان کا چبوترہ بنایا گیا تھا حضرت بلالؓ یہاں اذان دیا کرتے تھے اس مقام سے تاریخ کے بے شمار واقعات وابستہ ہیں نبی کریمﷺکے وصال کے بعد حضرت بلالؓ نے شام میں سکونت اختیار کی حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے دور میں مختصر مدت کے لئے مدینہ تشریف لائے امیر المومنین اور حسنینؓ نے ان سے اذان دینے کی استدعا کی حضرت بلالؓ نے چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دی تو صحابہؓ حضور کا زمانہ یاد کر کے زارو قطار رو پڑے اذان کے اس چبوترے کو محفوظ کیا گیاہے تا ہم سطح مسجد سے 15 فٹ بلندی پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے آج بھی اس مقام پر اذان دی جاتی ہے جو جدید ساونڈ سسٹم کے ذریعے مدینہ طیبہ کے اطراف تک گونجتی ہے چبوترے کے نیچے نمازیوں کے لیے صفیں بچھائی گئی ہیں یہاں سے روضۃ الجنہ میں داخل ہونے کا راستہ جاتا ہے ر وضہ الجنہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ میرے گھر (روضہ پاک) اورمنبر کے درمیان ایسی جگہ ہے جو جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ کا درجہ رکھتی ہے یہاں دوگانہ ادا کرنے کے لئے دو ڈھائی گھنٹے صبرو استقامت کے ساتھ انتطار کرنا پڑتا ہے زائرین کی لمبی قطار یں دونوں طرف لگی ہوتی ہے دن رات یہاں نمازیوں کا ہجوم ہوتا ہے ایک وقت 20 یا 25 نمازی اس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں تا ہم ہجوم میں 40 نمازی اندر داخل ہوتے ہیں مشکل سے رکوع اور سجدے کی جگہ ملتی ہے رات دن کی کسی گھڑی میں یہ جگہ خالی نہیں ملتی امام بھی اسی جگہ حضور نبی کریم ﷺکے محراب سے نمازیوں کی امامت کرتا ہے محراب کے قریب روضہ پاک اور مواجہ شریف کی طرف جانے کا راستہ ہے باب السلام کی طرف سے آنے والے اور روضۃ ا لجنہ سے نکلنے والے زائرین ایک ساتھ مواجہ شریف میں جا کر سلام پیش کرتے ہیں روضۃالجنۃ میں نماز کا حال مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کمال وضاحت کے ساتھ تحریر کیا ہے علامہ اقبال کے نعتیہ اشعار میں سے ایک شعر کا مفہوم روضہ اطہر پر ہد یہ سلام پیش کرنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو کر سمجھ میں آجاتا ہے
جو کرنی ہے جہانگیری محمدّ کی کی غلامی کر
عرب کا تاج سر پر رکھ خداوند عجم ہو ج�آاس قطار میں آپ کو عربوں کے ساتھ سوڈان ،نائجیریااور الجزائر کے 6 فٹ قد والے سیاہ فام ،انڈونیشیا،سری لنکااور نیپال کے 5 فٹ قد والے گندمی رنگ، جرمنی ،فرانس،برطانیہ اور امریکہ کے گورے سر جھکائے درود شریف کا وردکرتے ہوے سلام کے لئے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے ملینگے یہ وہ جگہ ہے جہاں عرب اور عجم دونوں عقیدت و احترام کے جذبے سے حاضری دینا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں دنیا کے کسی اور بادشاہ کا دربار ایسا نہیں جہاں دنیا بھر کے گورے ، کالے سب سلام پیش کرتے ہوں مواجہ شریف پر سلام کی کیفیت بیاں کے دائرے میں نہیں آ سکتی اس پر فیض کا شعر صادق آتا ہے
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے وریچے بند کئے اور سینے کا درباز کیا
مدینہ منورہ میں زیارات کی لمبی فہرست ہے مقام بدر کا فاصلہ زیادہ ہے جدہ کی طرف جاتے ہوئے قافلے کا رخ بدر کی طرف موڑا جا سکتا ہے بشرطیکہ قافلے میں ایک ہی گاڑی ہو جنگ خندق اور جنگ احد کے مقامات اطراف مدینہ میں موجود ہیں جنگ خندق کے مقام پر اموی خلیفہ عمر بن العزیز کے دور میں قائم کی گئی مساجد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے عثمانی خلافت کے دور میں سلطان سلیم نے پہاڑی کے اوپر مورچوں کی صورت میں یاد گاریں قائم کیں مقام احد پر شہدا کے مزارات اہمیت کے حامل ہیں حضرت امیرحمزہؓ کا مزار محفوظ ہے حضرت مصحب بنؓ عمیرؓ اور عبد اللہ بن عمرو بن جحشؓ کے مزارات بھی ہیں قریب ہی جبل روما ۃ ہے یہ میدان کے بیچ میں ایک ٹیلہ یا ڈھیری ہے جہاں نبی کریم ﷺ نے دشمن کے کسی ناگہانی حملے سے باخبر رہنے کے لئے تیر اندازوں کا دستہ مقرر کیا تھا مدینہ کے اطراف میں مسجد قبا بھی تاریخی جگہ ہے یہ نبی کریم ﷺ کی قائم کئی ہوئی پہلی مسجد ہے سورہ توبہ میں اس کے حوالے سے آیت اتری ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے احادیث میں آیا ہے کہ مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھنے والے کو مقبول عمرہ کے برابر ثواب ملے گا اسی طرح بنو سلمہ میں مسجد قبلتین تاریخی مسجد ہے یہیں پر آپﷺ نے نماز ظہر کی امامت فرما رہے تھے تحویل قبلہ کی آیت اتری اور آپ نے اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ شریف کی طرف موڑ دیا اس طرح بے شمار مقامات ہیں اور ہر مقام کی اپنی تاریخ ہے ساتویں صدی عیسوی کاچھوٹا سا قریہ جو یثرب کہلاتا ہے ہجرت نبی ﷺ کے طفیل مدینہ النبی بن گیا آج دنیا کے بڑے شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے ہجرت نبیﷺ کی یاد میں مکہ مکرمہ سے آنے والی شہراہ کو شارع ہجرہ کا نام دیا گیا ہے حرمین شریفین کے زائرین صرف جسمانی طور پر ان مقدس مقامات کا سفر نہیں کرتے بلکہ روحانی طور پر بھی عہد نبوی ﷺ کے فیوض و برکات کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں