297

استاد کا بچہ سرکاری سکول میں…….محمد جاوید حیات

حکومت کی طرف سے نہایت معقول حکمنامہ آیا ہے ۔کہ سرکاری سکولو ں کے اساتذہ کے بچے بھی سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے ۔بہت ہی معقول حکمنامہ ہے ۔۔وہ استاد جو سرکاری سکولوں میں پڑھاتا ہے ۔۔سرکار سے بڑی تنخواہ لیتا ہے خود اس کو اس ادارے پہ اعتماد نہیں جہان سے وہ تنخواہ لیتا ہے ۔۔اپنے بچوں کو اس لئے اس میں داخل کرانا نہیں چاہتا کہ اس میں تعلیم معیاری نہیں ۔۔تعلیم دینے والا خود کہتا ہے کہ اس کی دی ہوئی تعلیم معیاری نہیں ۔۔یہ المیہ ہے ۔۔لیکن اس استاد کے پاس بھی توجیہات ہیں ۔معقول دلائل ہیں ۔اپنے آپ کو بے قصور ٹھرانے کی براہین ہیں ۔۔اس سے پہلے جب ملک میں نجی تعلیمی اداروں کا تصور نہ تھا تو یہی سرکاری ٹاٹ کے سکول تھے جہان سے بچے پڑھ کے نکلتے تھے ۔۔ان سکولوں میں وہ بچے بھی ہوتے تھے جو آگے جا کر اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ۔وہ بچے بھی تھے جو آگے نہیں جا سکتے ناکام ہو کر تعلیم ہی چھوڑ دیتے ۔۔ان سکولوں میں پاس فیل ،مقدار معیار ،ترقی تنزل ،جزا سزا ،خوف اندیشہ وغیرہ کا تصور تھا ۔۔والدین فکر مند ہوتے ۔۔بچے پاس فیل ہونے سے ڈرتے ۔۔امتحانات کا ایک معیار ہوتا ۔۔استاد کی کار کردگی کی کڑی نگرانی کی جاتی ۔۔استاد کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ۔۔اداروں کے اندر دھندے شندے ،خارجی اثر اندازی سیاست وغیرہ نہیں تھی ۔۔کوئی استاد ’’کسی کا بندہ ‘‘ نہ ہوتا تھا ۔۔امیر غریب ،آقا غلام سب اسی ادارے میں ہوتے ۔تعلیم و تعلم میں یکسانیت تھی ۔۔استاد سے سخت محنت کرایا جاتا ۔اس کا احترام ہوتا اس کی عزت ہوتی ۔۔اس کی قابلیت کو دنیا مانتی ۔۔اس کے سامنے وقت کی نبضیں رک جاتیں ۔۔تب کہیں جا کے سکول ،تعلیم اور ادارے کا حسن تھا ۔۔لیکن جب غیر سرکاری ادارے بننے لگے ۔۔تو امیر کا بچہ ،آقا کا بچہ ،قابل بچہ ،آفیسر کا بچہ ،وزیر کا بچہ ،حکمران کا بچہ سب وہاں پہنچ گئے ان کے ساتھ محنت بھی وہاں گئی ۔۔اس لئے کہ وہاں کے استاد کو اپنی نوکری کا خطرہ ہونے لگا ۔۔وہ ایک آقا کے رحم و کرم کے سائے میں رہنے لگا ۔۔اس کی کارکردگی کا حساب کتاب ہونے لگا ۔۔والدیں کی بھی نگرانی آگئی ۔تعلیم طبقاتی تقسیم کی نذر ہو گئی ۔۔یہاں پہ صرف ٹاٹ رہ گئیں ۔۔استاد کا خلوص ،اس کی جانفشانی، اس کا خوف ، اس کی کارکردگی سب ٹرانسفر ہو گئیں ۔۔ٹاٹ کے سکول ٹاٹ کے سکول ہی رہ گئے ۔اس میں سہولیات خواب رہ گئیں ۔پرایمیری میں دو کمرے ایک استاد ہی رہ گیا ۔۔نصاب وہی کی وہی رہ گیا ۔۔طریقہ تدریس وہی فرسودہ رہا ۔۔گویا استاد لکیر کا فقیر رہا اور شاگرد کو لکیر کا فقیر بناتا رہا ۔۔ایک دور حکومت میں خواندگی کا تصور آگیا ۔۔جس کا مطلب تھا کہ بس غریب کا بچہ معمولی لکھ پڑھ سکے ۔رہی سہی محنت اس تصور نے ختم کردیا ۔پھر سرکاری سکول مسلسل بے توجہی کا شکار ہوتے رہے ۔کیونکہ امیر وں کو اپنے بچوں کا غم نہ تھا ۔۔ان کے لئے مہنگے ادارے بن گئے تھے اور نجی تعلیم کاروبار بن گئی تھی ۔۔ان اداروں میں میرٹ پہ داخلہ شروع ہوگیا تھا اور ان اداروں میں داخلہ فیشن بھی بن گیا تھا ۔۔سرکاری اداروں میں خواندگی آنے کے بعد جزا سزا کا تصور ختم ہو گیا تھا ۔۔اس بے ہنگم شور اور بے ربط اجتماع میں تعلیم و تعلم کیا معنی رکھتا ۔۔پھر طبقاتی فرق سرائت کر گیا ۔۔استاد ہی نصیحت کرنے لگا کہ یہاں پہ سہولیات نہیں اپنے قابل بچے کو کسی اچھے سے بپلک سکول میں داخل کرو ۔۔معاشرے میں استاد اپنے مقام سے گر گیا ۔۔ایک یہ کہ اس کی وہ صلاحیتیں نہ رہیں جس سے بڑے بڑے لکھے پڑھے لرزہ بر اندام ہوتے تھے ۔۔دوسرا یہ کہ اس کے مقابے میں پولیس کا سپاہی بھی بااختیار نظر آنے لگا ۔۔مادہ پرست معاشرے نے اس کو تیسری لائین میں لا کھڑا کیا ۔۔اس کی تنخواہ پہ صرف اس کا گذارہ ہونے لگا ۔۔معاشرے میں مقابلہ آگیا ۔۔ بلیک منی آگئی ۔پتھر کے اس معاشرے میں استاد پتھروں سے سر ٹھکرانے لگا ۔۔اب اس کے سامنے غریبوں کے بھی وہ بچے رہ گئے جو ذہنی لحاظ سے کمزور اور ان کی منزل یوں کہ والد آکر استاد سے کہہ دے ۔۔’’ماسٹر صاحب یہ الف با پڑھ سکے بس صرف اپنا نام لکھ سکے آگے مزدوری پہ جائے گا ‘‘ پھر والد غائب ہوجاتا ۔۔اب پتھروں کے اس معاشرے میں استاد کا شکوہ والد سے اور والد کا شکوہ استاد سے ہوتا رہا ۔۔اب وقت آگیا ہے مگر بہت دیر سے آگیا ہے ۔۔ حکومت کو احساس ہو اکہ غریب کا بچہ بھی معیاری تعلیم کا حق رکھتا ہے اس کو بھی ایسی سہولیات کے سکول میں داخل کرنا چاہیے ۔حکومت نے اساتذہ کی تعداد بڑھائی ۔۔اعلی قدم ہے ان کی تنخواہیں بہت بڑھائی احسن قد م ہے ۔نصاب میں تبدیلیاں بہت ہی بہترین کام ہے ۔۔اب رہ گیا ہے استاد کی کارکردگی کاجائزہ ،اس کے کام کی نگرانی ،اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ،اس کی محنت کی قدر ، محنت نہ کرنے پہ سزا ، بچوں میں فیل پاس کا تصور پھر سے اُجاگر کرنا ،مناسب جزا و سزا ،میرٹ پہ داخلہ ،جائزہ ،نگرانی اداروں کے اندر سیاست کی عدم مداخلت ۔۔یہ ایسے اقدامات ہیں جو معیاری تعلیم کے لئے ناگزیر ہیں ۔۔پھر خصوصاً پرائیمری سکولوں میں سہولیات ۔۔اساتذہ کی تعداد ،ان کے کام کی کڑی نگرانی ،ان کے لئے بار بار ٹرئینگ نئے تدریسی عوامل سے انکی آگاہی ،سکول میں کمروں کی تعداد، اساتذہ کی تعداد ۔۔یہ سب بھی معیارتعلیم کے لئے ناگزیر ہیں ۔آج سرکاری سکول کا استاد ان سارے حقائق کو سامنے رکھ کر حکومت کے اس حکمنانے سے نہایت ادب کے ساتھ شکوہ کنان ہیں ۔وہ دبی الفاظ میں کہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتال کا کوئی ڈاکٹر اپنے مریض بچے کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرے۔۔ وزراء امراء باہر ملک علاج کے لئے نہ جائیں۔۔۔ کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرائیں ۔۔بڑے بڑے آفیسرز اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کریں ۔۔اساتذہ کو کام کرنے پہ مجبور کریں ان کی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں ۔یا تو یہ نجی تعلیم ادارے ہی ختم کر دئے جائیں یا شرفاء اپنی توجہ سرکاری اداروں کی طرف کریں ۔۔ سوال ہے کہ کیا یہ شکوے قابل توجہ ہیں ۔۔دوسری طرف حکومت وقت کا یہ شکوہ دو سو فیصد درست ہے کہ جو استاد سرکاری سکول میں کام سے جی چراتا ہے اس کو استاد بننے کا حق ہی نہیں پہنچتا اس کو گھر جانا چاہیے ۔کیونکہ اس کی تنخواہ خاطر خواہ بڑھائی گئی ہے ۔۔اس کے کام کا بوجھ کم کیا گیا ہے ۔نصاب میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ سکولوں میں سہولیات پہلے کی نسبت زیادہ ہوگئی ہیں ۔۔اب استاد کی محنت کی راہ میں روکاوٹ ہی کیا ہے ۔۔لیکن استاد بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اگر اس کے ارد گرد جدید سہولیات سے آراستہ تعلیمی ادارے ہیں تو اس کا بھی حق بنتا ہے کہ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرے یہ دنیا کے سارے ممالک میں ہوتا ہے ان ممالک میں استاد پر کوئی اس طرح کی پابندی نہیں ۔۔مگر اگر آج کا استاد اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو اس سے زیادہ ظالم بھی کوئی نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں