235

منصف اعلی چترال کی پکڈنڈیوں پر……….محمدجاوید حیات  

چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ ضلع چترال کا دور کیا ۔۔یہ دورہ آپ کی اعلیٰ ظرفی تھی ورنہ تو ملک کے منصف اعلی کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں مختلف ادوار میں مختلف چیف جسٹس کو مختلف حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار کو عوام کے دکھ درد محسوس کرنے کے حوالے سے شاید یاد کیا جائے گا ۔۔ظلم یہی نہیں کہ کو ئی شخص کسی دوسرے شخص کا حق غصب کرے ظلم یہ بھی ہے کہ عوام ریاست کی فلاحیت اور فائدے سے محروم رہیں ۔۔قوم کے پیسے قوم کی بہبود میں خرچ نہ ہوں ۔۔عوام سہولیات سے محروم ہو جائیں ۔۔یہ سب محرومیاں کسی نہ کسی بڑے کو نظر آنی چاہیئیں ۔۔کوئی نہ کوئی محسوس کرے ۔۔یہ ایک فلاحی ،جمہوری اور اسلامی ریاست ہے اس میں سہولیات سے محروم ہونا بری بات ہے ۔۔چترال ایک پسماندہ ضلع ہے ۔۔یہاں پہ ریاستی حکمرانی کے بعد پہلی دفعہ لوگوں نے بھٹو سینئر کے دور میں نئے دور کی تبدیلیوں کو محسوس کیا ۔۔ریاستی دور میں نہ یہاں پہ کوئی سہولیات تھیں اور نہ ریاستی حکمرانوں کے پاس ایسے وسائل تھے کہ علاقے کو ترقی دے سکتے ۔۔امتداد زمانہ نئے دور کے ثمرات آتے رہے مگر یہ ضلع اپنی جعرافیائی مشکلات کی وجہ سے ترقی کی شاہراہ پہ گامزن نہ ہو سکا ۔۔یہ پتھریلی، پہاڑی،پھیلی ہوئی وادیوں پہ مشتمل ضلع اس وقت واقع ترقی کرتا کہ اگر اس کی لیڈر شپ دن رات اس کی ترقی کی فکر میں ہوتی ۔۔ایک جنون زادہ بنجارہ جیسی لیڈر شب ہوتی ۔۔اس کو اپنی فکر نہ ہوتی ۔۔اپنی پلاٹوں ،بنگلوں، کمیشنوں ، ٹھیکوں ،جائیدادوں اور سستی سیاسی کیرئیر بنانے کی جستجو نہ ہوتی ۔۔وہ پارلیمنٹ میں ایک بیکاری بن جاتا ۔۔دھائی دیتا کہ میں ایک پسماندہ ضلعے کا نمائندہ ہوں میرے ہاں زندگی ناممکنات میں سے ہے ۔۔سڑکوں کی جگہ پکڈنڈیاں ہیں ۔بجلی کی جگہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں ۔۔صحت کی سہولیات کہیں نہیں۔۔ لوگ بے موت مرتے ہیں ۔جابجا تعلیمی ادارے نہیں ۔اشیائے خوردو نوش مفقود ہیں ۔پینے کا صاف پانی نہیں ۔دریاؤں کے اوپر پل نہیں ۔ندیاں مست ہاتھی ہیں ۔۔مگر یہاں کے نمائندوں نے اننچاس سالوں میں ایسا کچھ کر نہ سکے ۔۔ کبھی د ھائی نہ دی کبھی فریاد نہیں کیا ۔ان کو بسا اوقات اپنی پڑی رہی ۔۔وہ اس ضلعے کو بھی دوسرے ضلعوں کی طرح سمجھا ۔۔اس کے ہمسایہ ضلع دیر کے گاؤں گاؤں پختہ سڑکیں ۔۔سوات تو جنت نظیر ہے ۔حالانکہ جغرافئے کے لحاظ سے یہ ان سب سے اہم ہے ۔رقبے کے لحاظ سے یہ ان سے بڑا ہے ۔۔یہ سنٹرل اشیا ء کا گیٹ وے ہے ۔۔اس کے پہاڑ قیمتی قدرتی معدانیات سے ملامال ہیں ۔ان کے دریاؤں پہ قدم قدم پہ بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں ۔۔اس کے جنگلات ملک کے سرمائے ہیں ۔۔اس کے باوجود اس کی پسماندگی سوالیہ نشان ہے ۔۔چیف جسٹس صاحب نے اپنی آنکھوں سے چترال بمبوریت روڈ کو دیکھا چترال گرم چشمہ روڈکو دیکھ لیا ۔۔آپ کے درد مند دل نے محسوس کیا کہ ان سڑکوں پہ روز سفر کرنے والے لوگ کس اذیت سے گذر رہے ہیں ۔۔یہ لوگ اس ملک کے باشندے ہیں ۔چیف جسٹس ان کا بھی چیف جسٹس ہے ۔۔اگر وہ ان کی مشکل اوردرد محسوس نہ کریں گے تو اور کون کرے ۔۔چیف جسٹس کا وہ درد بھرا جملہ چترال کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ ان سڑکوں پر تو خچر بھی نہیں چل سکتے ۔۔یہ ایک محب وطن ،انسان دوست ،درد مند منصف کا درد بھرا لہجہ ہے ۔۔یہ چترالیوں کے درد اور مشکلات کو محسو س کرنے کا ثبوت ہے ۔چترال کی سڑکوں کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ۔۔ملک کے حکمران انہی سڑکوں پہ چلتے رہے ہیں ۔۔فوج کی اعلی قیادت ،آفسر شاہی ،بڑے بڑے لیڈرز انہی پکڈنڈیوں سے واقف ہیں ۔۔انھوں نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ سڑکیں بننی چاہیءں ۔۔یہ چلنے کے قابل ہونی چاہیءں ۔آمد و رفت ہی سے ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔۔لواری سرنگ سے پہلے چترال چھ مہینے کے لئے قید خانہ ہو اکرتا تھا ۔۔اب وہ دور گذر گیا ۔اب چترال توتبدیلی چاہتا ہے ۔۔یہ مٹی تبدیلی بلکہ واضح تبدیلی چاہتی ہے ۔۔شندور دنیا کا مشہور سٹیڈیم ہے اس کے لئے کچی سڑک جاتی ہے ۔۔گرم چشمہ مشہور سیاحتی علاقہ ہے اس کے لئے کچی سڑک ہے ۔۔بمبوریت کیلاش قبیلے کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اس کے لئے پکڈنڈی ہے ۔۔تورکھو روڈ میں بلا وجہ تاخیر اور گھپلوں کا سب کو پتہ ہے ۔۔اس پھیلے ہوئے ضلعے کے دوسرے علاقوں کے لئے ناقابل بیان دشوار گذار راستے ہیں ۔۔قیادت کے لئے مہمات ہوتی ہیں وعدے وعید ہوتے ہیں ۔مگر گھر کے راستوں پہ وہی کہکشان ہیں ۔۔نمائندوں کو درینہ مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔تاکہ یہاں کی پسماندگی دور ہو ۔قوم کا آقا قوم کا خادم ہوتا ہے تب قوم اس پہ فخر کرتی ہے ۔۔جنت نظیر چترال کی ان تنگ سڑکوں پہ جب عزت مآب چیف جسٹس سفر کرتے ہیں تو نمائندوں کی کار کردگی سوالیہ نشان بن جاتی ہے ۔۔اور چترال کا ذرہ ذرہ کہنے لگتا ہے
وہ آئے گھر ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں