چترال ( محکم الدین ایونی) ڈپٹی کمشنر چترال خورشید عالم محسود نے کہا ہے ۔ کہ قدرتی آفات کے نقصانات میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چترال پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق معلومات کی فراہمی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ اور اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو باہم مل جل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اور کلا ئمیٹ چینج ایسا موضوع ہے ۔ جس کے بارے میں جتنی بھی آگہی پھیلائی جائے کم ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز چترال یونیورسٹی میں ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے بطور مہمان خصوصی کرتے ہوئے کیا ۔ جس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر چترال یو نیورسٹی پروفیسر بادشاہ منیر بخاری صدر محفل اور پریذیڈنٹ آغا خان لوکل کونسل محمد افضل اعزازی مہمان تھے ۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا ۔ کہ قدرتی آفات کی وجوہات اور اس کے تدارک کے حوالے سے ماہرین کی تجاویز اور سفارشات پر عملدر آمد ضروری ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ وسائل کی کمی ہے ۔ اور کچھ لوگوں میں بھی آگہی کا فقدان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ آفات سے متاثر ہونے کے باوجود دوبارہ اُسی جگہ عمارات تعمیر کرنے پر بضد ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طرف سے اُنہیں منع کرنے پر وہ احتجاج پر اُتر آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ مجھے تھر پارکر ، نواب شاہ صوابی اور چترال میں ملازمت کرنے کا موقع ملا ۔ اور میرے مشاہدے میں آیا کہ ہر جگہے میں آفات کی نوعیت مختلف ہے ۔ کہیں خشک سالی ، کہیں سیلاب ، کہیں ڈینگی اور کہیں زلزلے ، سیلاب اور برف کے تودے گرنے کے حادثات سے لوگ دوچار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ کہ تعمیرات کے حوالے سے حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے ۔ اُس پر عملدر آمد ہونی چاہیے ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر چترال یونیورسٹی پروفیسر بادشاہ منیر بُخاری نے کہا ۔ کہ چترال میں بعض ادارے ڈیزاسٹر کے حوالے سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ جس میں فوکس ہیومنٹیرین اسسٹنس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ فوکس نے ضلع بھر میں 372دیہات کی ہیزرٹ اینڈ رسک میپنگ کی ہے ۔ اگر فوکس اس کی اجازت دے تو چترال یونیورسٹی اس کو Validate کرکے فوکس کے ساتھ مل کر پبلش کرے گا ۔ انہوں نے اس کارکردگی پر فوکس کی تعریف کی ۔ پروفیسر بُخاری نے کہا ۔ کہ ڈیٹا جمع ہونے کے بعد ہمیں اُس سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اور عملی کام پر توجہ دینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ افسوس کا مقام ہے ۔ کہ سرکاری املاک بھی ایسی جگہوں میں تعمیر کئے جاتے ہیں ۔ جو آفات کی زد میں ہوتے ہیں ۔ جن کی مثالیں ریشن ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور گولین میں ایس آر ایس پی کی ہائیڈل پراجیکٹ کی صورت میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں ماحولیاتی آلودگی میں تشویشاناک اضافہ ہوا ہے ۔ خصوصا چترال شہر