233

داد بیداد ۔۔۔۔شہری آزادی اور سول سو سائیٹی ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

وطن عزیز پاکستان نے 70سا لوں کا سفر کر کے اپنی کشتی اس جگہ اتاری ہے جہاں 1958ء میں یہ کشتی اتاری گئی تھی اکتو بر 1958کے تین اخبارات کی فائلیں نکا لیں اور ان کا موازنہ اکتو بر 2018کے تین اخبارات میں چھپنے والی خبروں اور تبصروں سے کریں آپ کو گہری مما ثلت نظر آئیگی شہری آزا دیوں کی بات ہو ، سیا سی رہنماوں کی بات ہو ، انسانی حقوق کی بات ہو یا عوامی مسا ئل کی بات ہوآپ کو 1958اور 2018میں گہری مما ثلت نظر آئیگی مار شل لاء آنے سے پہلے اور مار شل لاء آنے کے بعد 3باتوں پر بہت زور دیا گیا تھا 1958ء کے سیاسی لیڈر کرپٹ ، بد عنوان اور نا اہل تھے ، سول بیو رو کریسی میں کا لی بھیڑیں گھسی ہوئی تھیں اور اخبارات ملک دشمنی میں ملوث تھے ، صحا فیوں کو سید ھا کر نا ملک کا سب سے بڑ ا مسلہ تھا اکتو بر 2018ء میں وہی صورت حا ل ہے ایک واقعہ مشہور ہے سرد جنگ کے زمانے میں سو یت یونین کے اندر اظہار رائے پر پابندی تھی سٹا لن کا دور تھا ایک روسی صحا فی امریکہ کے صحا فی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا امریکی صحا فی نے کہا ہمارے ہاں میڈیا آزاد ہے ہم حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں پا لیسیوں میں کو تا ہیوں پر گرفت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ امریکی صدر کو گا لی بھی دے سکتے ہیں کوئی پا بندی نہیں سویت یونین کے صحا فی نے کہا ہما رے ہاں بھی آزادی اظہار کی صورت حال آپ جیسی ہے امریکہ پر تنقید کرنے ، امریکی پا لیسیوں پر تنقید کر نے اور امریکی صدر کو گا لی دینے میں ہم بھی آزاد ہیں پاک وطن میں اخبارات اور میڈیا ہا و سز کو تین باتوں کی کھلی اجا زت ہے سیا ست دانوں پر جتنی مر ضی کیچڑ اچھا لو ، سول سروس کے افیسروں کو دل کھول کر بد نام کرو، شہری آزا دیوں کا دفاع کرنے والے اخبارات ، اورصحا فیوں کو برا بھلا کہو، گالیاں دو، بے عزت کرو کوئی تمہارا موا خذہ نہیں کر ے گا “مقدس گائے “کو کچھ کہو گے تو بڑا طو فان آئے گا ہمارے دوست پرو فیسر فاطمی کہتے ہیں “مقدس گائے “کی تر کیب اب پرانی ہو چکی ہے اب تو “مقدس سانڈ “کی نئی تر کیب استعمال ہورہی ہے ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے مار شل لاوں میں ایک لطیفہ بڑ امشہور تھا کہنے والے کہتے تھے کہ سر حدی گاوں میں ایک پاکستانی کتے کی ملاقات پڑوسی ملک کے کتے سے ہوئی پڑوسی ملک کا کتا بہت کمزور اور لا غر تھا پا کستانی کتا تندرست ،توانا اور مو ٹا تکڑا تھا اس نے پڑوسی ملک کے کتے کو پاکستان آنے کی دعوت دی پڑوسی ملک کے کتّے نے پو چھا کیا تمہارے ہاں بھونکنے کی آزادی ہے ؟ پاکستا نی کتّے نے کہا بھونکنا منع ہے پڑوسی ملک کے کتّے نے کہا نہیں یا ر میں تمہارے ملک میں نہیں رہ سکتا ، میر ادم گھٹ جائے گا آج کل سو شل میڈیا پر اردو کے ایک سینیر شا عر کی نظم “نیا حکم نا مہ “بہت مشہور ہو اہے نظم اس طرح شروع ہوتی ہے ؂
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے
بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے !
کدھر جارہی ہیں ؟
ہواوں کو بتا نا یہ بھی ہو گا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی
کہ اندھی کی اجا زت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی یہ فصیلیں
کا غذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفا ظت کر نا ان کی
ہے بہت ضروری
آگے چل کر نظم میں ایک اور بند آتا ہے جو نظم کی خوبصورتی کو دوبا لا کر تاہے شا عر کہتا ہے
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں ذرا یہ سر کشی اپنی کم کریں
کچھ اپنی حد میں ٹھہریں
ابھر نا اور بکھر نا
بکھر کر پھر ابھر نا
غلط ہے ان کا یہ ہنگا مہ کر نا
یہ سب ہیں وحشت کی علامت
یہ سب ہیں بغاوت کی علامت
بغا وت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں بر داشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ہو گا ان کو اب چپ چاپ رہنا
شا عر اس پربس نہیں کر تا نظم کا اگلا بند گو یا پوری نظم کا حا صل ہے شا عر کہتا ہے
کسی کا حکم ہے
اس گلسِتاں میں
بس اب ایک ہی رنگ کے پھول ہونگے
کچھ افسر ہونگے جو یہ طے کرینگے
کہ گلسِتاں کس طرح ہے اب بننا
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
کہ لہریں حا کموں کی مٹھی میں
ہتھکڑی میں ، قید نہیں رہ سکتیں
لہریں قید میں ہوں
تو دریا بے تاب ہو تا ہے
اور اس بے تا بی کا
اگلا قدم سیلاب ہو تا ہے
وطن عزیزپا کستان کی تا ریخ میں 1988کے انتخا بات کے بعد پہلی بار اظہار رائے کی آزادی کے اسباب بہم ہوئے 30سال پہلے میڈیا کی آزادی کی طرف پہلا قدم اس وقت اٹھا یا گیا جب ٹرسٹ کے اخبارات کو آزادی ملی ، اس کے بعد جنرل مشرف کے دور میں نئے ریڈیو اور ٹی وی چینل کھو لے گئے نئے اخبارات آگئے سو شل میڈیا آیا ، زر داری نے کوئی قد غن نہیں لگا ئی نواز شریف کے دور میں بڑے شہروں کے اندر مخصو ص علا قوں میں بعض ٹی وی چینلوں اور بعض اخبا رات پر پا بندیاں لگا ئی گئیں کیبل اپریٹر ز اور ہا کر ز کو ڈرا یا دھمکا یا گیا اخبارات کے ما لکا ن اور اخباری کا رکنوں کو ہر اساں کیا گیا مخصو ص ٹی وی چینلوں پر وقت خرید کر مخا لف سیا ستدا نوں پر کیچڑ اچھا لنے کا سلسلہ شروع کیا گیا یہ سلسلہ اب بھی جا ری ہے بلکہ اب اس میں مزید تیزی آگئی ہے اپو زیشن میں جانے کے بعد ن لیگ والے کہتے ہیں کہ اظہار رائے پر پا بندیا ں ہماری طرف سے نہیں کسی اور کی طرف سے تھیں کل کی کسی سا عت میں مو جود ہ حکمران اگر خدا نخواستہ اپو زیشن میں گئے تو یہ انکار کر ینگے اور کہینگے کہ اظہار رائے پر پا بندیاں ہماری طر ف سے نہیں لگا ئی گئیں کسی اور نے لگائی ہو نگی “کسی اور “کی تلاش میں آدھا ملک ہم سے الگ ہو ا”کسی اور”کی تلاش میں خاکم بد ھن کچھ اور نہ ہو جائے اس لئے کہ شہری آزادی اور سول سو سائیٹی پر پابندیوں کا انجام اچھا نہیں ہو تا ہم نیک و بد حضو ر کو سمجھائے دیتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں