380

موجودہ بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کوحاصل مالیاتی اور انتظامی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں/ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ

چترال (نمائندہ ڈیلی چترال) ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے کہا ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کوحاصل مالیاتی اور انتظامی اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ان کے ساتھ وابستہ عوامی توقعات پہاڑ کے برابرہیں لیکن اس سب کے باوجود ضلعی حکومت نے دور رس نتائج کے حامل کارنامے سر انجام دئیے جن میں 5ارب روپے مالیت کے چترال گروتھ اسٹریٹیجی کی تشکیل، چترال کا ایک سافٹ امیج پیدا کرنا اور علاقے میں دیرپا امن اور معاشرتی ہم آہنگی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام شامل ہیں۔ چترال پریس کلب کے پروگرام “مہراکہ “میں ضلعی حکومت کی کارکردگی اور اس کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے 2013ء میں صوبے میں حکومت سنھبالنے کے بعد نئی بلدیاتی نظام کا زبردست ڈھنڈورا پیٹا اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کی بات کی اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014ء اسمبلی سے پاس کرواکر اسے عملی قدم قرار دیا اور اس جوش میں بڑے بڑے سیاسی رہنما بلدیاتی انتخابات کے میدان میں کود پڑے لیکن 30مئی 2015ء کوجب یہ انتخابات منعقد ہوئے تو اس کے بعد 17اگست تک دوسرے مرحلے کو دبائے رکھا گیا اور بالاخر جب ضلعی حکومتیں اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریش بن ہی گئے تو رولز آف بزنس ایسے جاری کئے جاتے رہے اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014ء میں اتنی ترامیم لائے گئے کہ اس کا خلیہ ہی بگڑ گئی اور ضلع ناظم کو بے دست وپا کردیا گیااور مضحکہ خیز بات یہ رہی کہ سروس ڈلیوری کے اہم محکمہ جات پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ، سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کو devolvedمحکموں کی لسٹ سے نکال دئیے گئے جبکہ ٹی ایم اے اور ویلج کونسل بھی براہ راست صوبائی حکومت کے پاس رہے۔ انہوں نے کہاکہ devolution of powersکے بغیر کوئی لوکل گورنمنٹ سسٹم بے مغنی ہوکر رہ جاتی ہے اور موجودہ نظا م میں اختیارات عملی طور پر اب بھی سرکاری افسران کے پاس رکھے گئے ہیں اور منتخب بلدیاتی نمائندے محض مجبور و بے بس۔ ان حالات میں کوئی ضلع ناظم کتنا کام کرسکتا ہے ، اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔ چترال کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ جب 17اگست کو ضلع نظامت کا حلف اٹھایا تو ضلعے کا کونا کونا تاریخ کی بدترین سیلاب سے متاثر تھا اور کئی وادیوں کا رابطہ ہی ایک دوسرے سے کٹ گئے تھے۔سڑکوں، ابنوشی اور ابپاشی کے فزیکل انفراسٹرکچر ز تباہ ہوگئے تھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے تھے ۔ایک ماہ بعد اکتوبر کے زلزلے نے رہی سہی کسر پوری کردی اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ انہوں نے چترالی عوام کی صبر واستقامت کی داد دیتے ہوئے کہاکہ ان مشکل ترین صورت حالات کے باوجود انہوں نے ضلعی حکومت کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے کوئی پریشانی پیدا نہیں کی۔ ایسے حالات میں بہت ہی ناگزیر صورت میں ابنوشی کے اسکیموں اور رابطہ سڑکوں یا پلوں کی بحالی کے لئے ضلعی حکومت نے ڈھائی کروڑ روپے مختلف علاقوں خرچ کئے لیکن اس کی ادائیگی اب تک نہیں ہوئی جس کی ادائیگی نہ ہونے کی بنا یہ قرضے ضلعی حکومت کے ذمے چلے آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت کی مزید بے حسی اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ مذاق کی ایک اور مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مالی سال 2014ء میں جب بلدیاتی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے تو ضلع چترال کے لئے نان سیلری بجٹ کے مد میں 35کروڑ روپے آئے تھے لیکن ضلعی حکومت کے وجود میں آنے بعد یہ رقم ایک تہائی کم ہوکر صرف 14کروڑ روپے کردی گئی ۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ ان گزشتہ چار سالوں میں ایک ہی دفعہ روٹین کی اے ڈی پی مل گئی ۔ ضلع ناظم نے انتظامی اختیارات کے حوالے سے کہاکہ ماضی کی حکومت میں افسران کو ان کے ساتھ عدم تعاون پر اکسایا گیا اور جب بھی انہوں نے بطور ضلع ناظم کسی سرکاری محکمے میں پائی جانے والی غلطی درست کرنے کی کوشش کی تو اسے درست قرار دیا گیا جس طرح محکمہ صحت میں کلاس فور کی اسامیوں پر بے قاعدگیاں سامنے آئے تھے جب چترال ٹاؤن کی رہائشی کو یارخون، اویر ، تورکھو یا مداک لشٹ میں ہسپتالوں میں کلاس فور لگائے گئے اور انہوں نے کئی ماہ تک ان تقرریوں کو معطل کئے رکھا لیکن صوبائی حکومت نے اسے validateکیا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مشکلات اب سامنے آرہے ہیں۔ ضلع ناظم مغفرت شاہ نے کہاکہ ہم نے ان حالات میں دلبرداشتہ ہونے کی بجائے کام جاری رکھا اور چترال میں ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی آمد پر ان کا استقبال کی جبکہ پی ایم ایل۔ این کے کارکنوں نے عمران خان کے دورے کے موقع پر استقبال میں پیش پیش تھے اور اس کا بہت ہی مثبت اور خوشگوار اثر سیاسی ماحول پر مرتب ہوااو ر یہی ہی نہیں چترال کی مثالی امن وامان کو برقرار رکھنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوا اور اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کے دورہ چترال کے موقع پر سنی اور اسماعیلی بھائیوں میں جو اتحاد واتفاق اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوئی تھی ، ناقابل فراموش ہے۔ ترقی کے لئے منصوبہ بندی کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ چترال پہلا ضلع تھا جوکہ devolutionپلان کے مطابق ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ پلان ترتیب دی جبکہ بڑے بڑے ضلعے اس کام میں چترال سے پیچھے رہے۔ انہوں نے کہاکہ اس پلان کو آگے لے جاتے ہوئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے چترال گروتھ اسٹریٹیجی بناکر اس کے لئے ڈونر بھی ڈھونڈ نے میں کامیاب ہوئی ہے اور ڈونروں کی طرف سے 5ارب روپے کی کثیر رقم دینے کا عندیہ مل گیاہے جس سے چترال میں تعمیر وترقی کا ایک نیا باب کھل جائے گا۔ حاضرین کے سوالات دیتے ہوئے انہوں نے محمد عادل (کوجو) کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں حال ہی میں پروموٹ ہونے والے ڈسٹرکٹ اسپیشلسٹوں کو اسی ہسپتال میں رکھنے کے لئے بالائی حکام سے با ت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے سوال کیا کہ آ پ نے اپنی بیان میں بھی کہا کہ نہایت نامساعد حالات میں ضلع حکومت بنانے میں کامیاب ہونے پر آپ کو king makerمانا جاتا ہے ، کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ مجھے اس بات سے سوفیصد اتفاق نہیں ہے۔ عبدالعزیز (دنین) نے سوال کیا کہ جماعت اسلامی کو آپ کیا دے کر جارہے ہو ، تو انہوں نے کہاکہ ایک ایم این اے اور ایم پی اے۔ ان ہی کا سوال تھاکہ چترال گروتھ اسٹریٹیجی آپ کے دور ضلعی نظامت کے بعد ہی عمل میں آئے گا تو ان کا کہنا تھاکہ میرا سوچ یہ ہے کہ چترال کو فائدہ ہو اور یہ اجتماعی سوچ کا نتیجہ ہے۔ سجا احمد خان (جغور) کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ چترال میں کام کرنے والے این جی اوز کے بارے میں دو انتہائی رائے موجود ہیں جبکہ میں نے این جی اوز پرشروع ہی سے واضح کردیا ہے کہ ان کا کام ترقیاتی کام ہے نہ کہ سیاست میں دخل اندازی اور میں اب بھی اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ سیاست بازی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اقبال حیات (ہون) کاعبدالولی خان بائی پاس روڈ سے متعلق سوال کا جوا ب دیتے ہوئے کہاکہ اس اہم منصوبے کو اس کے اصل ڈیزائن کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ان کی کوششیں جاری ہیں۔ سی ڈی ایل ڈی کے بارے میں نوید احمد بیگ (بکامک) کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اس کے لئے پارٹنر کے سیلیکشن کے لئے سفارش میرٹ پر ہوئی ہے اور ضلعی حکومت کا اس میں کسی کردار کی گنجائش نہیں۔ اس موقع پر moderationکاکردار ادا کرنے والے سینئر صحافی محکم الدین محکم نے کہاکہ سسٹم میں موجود نقائص اور مشکلات کے باوجود ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی مجموعی کارکردگی تسلی بٰخش رہی اور ایسے سیاسی اور سماجی روایات کو رواج دیا جن کے اثرات تا دیر علاقے کی معاشرتی اور سیاسی زندگی پر پڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ امن وامان کے حوالے سے ضلعی حکومت کی کاوشیں قابل ذکر ہیں اور محدود مالی اور انتظامی اختیارات کے باوجود ترقیاتی کام بھی انجام پاچکے ہیں جبکہ چترال گروتھ اسٹریٹیجی ضلعی حکومت کی کارکردگی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں