317

میں نے دیامر ڈُوبتے دیکھا۔۔۔تحریر: امیرجان حقانی

اکیسوی صدی کے اس لیٹسٹ (Latest )دور میں ضلع دیامر کی بدقسمتی اور پسماندگی پر صرف اور صرف کفِ افسوس ہی مَلا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ضلع دیامر کو بے تحاشا نواز ہے لیکن انہیں عقل و دانش اور دور اندیشی سے مکمل کورا رکھا ہے۔ان کے پاس مستقبل کا سرے سے کوئی پلان ہی نہیں۔ ضلع دیامر پورے خطے میں واحد ضلع ہے جس میں بے تحاشا قدرتی جنگلات ہیں جس میں ہر قسم کی قیمتی لکڑی پائی جاتی ہے۔اور یہ تمام جنگلات ضلع دیامر کے عوام کی ملکیت ہے۔جب ضلع دیامر باقاعدہ پاکستان کے ساتھ ملحق ہورہا تھا تو مقامی لوگوں نے اس شرط کے ساتھ الحاق کیا تھا کہ جنگلات اور بنجر زمینیں ان کی ملکیت ہوگی حکومت کسی قسم کی مداخلت نہیں کرسکے گی۔جنگلات کی مَدمیں ضلع دیامر کو کھربوں روپے آئے اور اب کی بار دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کی وجہ سے بھی دیامر کے بنجر زمینوں کے عوض کھربوں روپے عوام کو موصول ہوئے۔خطے میں واحد ضلع ہے جس کی سو فیصد آبادی اہل سنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔گھنے جنگلات کے ساتھ درجنوں سیاحتی مقامات اور سینکڑوں چراگاہیں ہیں جہاں لاکھوں مال مویشاں پَلتی ہیں ۔جب اس سب کچھ پر نظر ڈالتا ہوں تو دیامر کی خوش قسمتی اور عطائے خداوندی پر رشک آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دیامر کو بے تحاشا نوازنے کے سے انہیں عقل و دانش کے اعتبار سے کورا ہی رکھا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی لاریب کتاب قرآن کریم دیامر کے ہرگھرانے میں موجود ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں، عقل، فہم،فکر، تدبر، تجسس، تحقیق،شعورکے الفاظ کا ہزاروں بار ذکر کیا اور عقل اور فہم اور شعور سے کام لینے کا صریح حکم دیا ہے۔دیامر کے دانشور اور علماء قرآن بینی و خوانی کے دعویدار ہیں مگر ایک دفعہ بھی عقل و فہم اور شعورکو استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں۔داریل تانگیر، تھک نیاٹ اور دیگر علاقوں میں جنگلات کی مَد میں کھربوں روپے آئے مگر اس تمام رقم سے ان علاقوں میں ایک بھی معیاری اسکول اور دینی مدرسہ نہیں بنایا گیا۔داریل تانگیرا ور چلاس جیسے کروڈ پتی لوگوں کے شہر میں آج بھی قران کریم حفظ کرنے والے طلبہ اور طالبان علومِ نبوت گھروں سے بھیک مانگ مانگ کر سالن اور روٹی جمع کرتے ہیں۔ یہ سالن اور روٹی اکثر باسی ہوتی ہے۔مجھے ان مُلاوں پرغصہ نہیں آتا جو طالبان علوم نبوت کو روز اول سے بھکاری بناتے ہیں مجھے دُکھ ان والدین پر ہوتا ہے جو اپنے پھول جیسے بچوں کو مستقل بھکاری بنانے کے لیے ان کے حوالہ کرتے ہیں۔مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کروڈوں کے مالکان کے شہر اور دیہات میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا۔دیامر بھاشا ڈیم کی مَدمیں گوہرآباد والوں کو کروڈوں روپے ملے تو میں نے کئی لوگوں سے فریاد کی کہ کوئی معیاری تعلیمی ادارہ بناو،مگر کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگی۔ ہر ایک اس خبط میں مصروف ہے کہ گلگت میں کوئی مہنگا ترین مکان لے لو اور کرایہ پر چرھا لو۔میں نے انہیں یہ لالچ بھی دیا کہ معیاری تعلیم ایک کامیاب بزنس ہے۔ آپ لاکھوں کما سکتے ہیں مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔
دیامر کے حوالے سے ہمیشہ میڈیا میں کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔لوکل، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا ایک طے شدہ پالیسی کے تحت دیامر کے لوگوں کو آن پڑھ، اُجڈ اور دہشت گرد ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔زمینی حقائق اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور تجزوں میں دور کی بھی مطابقت نہیں ہوتی۔پورے ملک گھومنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دیامر کے لوگوں سے زیادہ مہمان نواز اور امن پسند اور مخلص لوگ کہیں نہیں پائے جاتے مگر انہیں مسلسل شرپسند ثابت کرنے میں صلاحتیں صَرف ہورہی ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔اس رائے کو قطعاً نظر انداز نہیں کی جاسکتا کہ گلگت بلتستان میں بالعموم اور دیامر میں بالخصوص اسلام اور ملک دشمن لابیاں اور قوتیں اپنے پاؤں جمانے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں۔دنیا کا سب سے شفاف اور لمبی عمر والا ڈیم بننے سے روک رہی ہیں اور اس کے لیے دیامر میں ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ یہ ڈیم اور پاک چین راہداری کا منصوبہ ناکام رہے۔ ہمارے مقتدر طبقات اور حساس اداروں کو بہتر حکمت عملی سے ان امور سے نمٹنا چاہیے نہ کہ بھونڈی حرکتوں سے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پہلے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دیامر والوں کو دہشت گرد اور مفروروں کا گھڑ ثابت کیا جائے پھر اپریشن کے نام سے بے گناہ اور غریب لوگوں اور کچی مساجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے غریب طلبہ اور ان کے اساتذہ کی زندگی اجیرن بنادی جائے۔یقیناًاس سے محبت کی بجائے نفرت کا لاوا پکے گا اور جب یہ لاوا پھٹے گا تو سب کو جلا کر راکھ کردے گا۔یہ بات طے شدہ ہے کہ دیامر پاکستان کاباقاعدہ حصہ ہے، یہ کوئی علاقہ غیر یا الگ ایجنسی نہیں۔پاکستان کی سالمیت و تحفظ کے لیے ہمیشہ یہاں کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔دیامر کی عوام کسی صورت اینٹی پاکستانی نہیں۔یہاں کی مساجد میں ہمیشہ پاکستان کی سالمیت کے لیئے اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔اگر حکومت اور مقتدر طبقات دیامر میں مستقل وجود چاہتے ہیں اور قدم جمانا چاہتے ہیں، شعور اور آگاہی دینا چاہتے ہیں،ملک دشمن عناصر کا تعاقب کرنا چاہتے ہیں اور دیامر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات خوش آئند ہے مگر اس کے لیے جو انداز اپنا جارہا ہے وہ قطعاً مناسب نہیں۔یہاں دہشت و حشت اور اپریشن کے نام سے آنے کے بجائے محبت اور رواداری کے نام سے آئے۔ عوام و خواص آپ کو ویلکم کہیں گے۔ہم سب جانتے ہیں کہ سانحہ کوہستان، لالو سر اور سانحہ نانگا پربت میں کون لوگ ملوث ہیں مگر بدنامی صرف اور صرف دیامر کے حصے میں آئی۔اس کے بعد جان بوجھ کر دیامر میں ایسے حالات پید ا کیے جارہے ہیں کہ یہاں کے لوگ حکومت اور مقتدر طبقات کے مخالف ہوتے جارہے ہیں۔ میری مقتدر طبقات سے عاجزانہ گزارش ہے کہ آپ دیامر میں دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کا ضرور قلع قمع کردیں مگر یہاں کے علماء اور عوام کو اعتماد میں لے کر یہ خدمت انجام دیں،غریب عوام اور بے گناہ لوگوں کو پکڑنے دھکڑنے سے مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے ہیں اس سے گریز کیا جائے اور دیامر کے عوام کو بھی حکومتی مشینری کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔عدم تعاون کی صورت میں پورا دیامر متاثر ہوگا جو کسی صورت مستحسن نہیں۔
بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت اور میڈیا کے ساتھ ساتھ دیامر کے وڈیرے اور آفیسرز بھی دیامر کی ترقی نہیں چاہتے۔دیامر کے سیاسی لیڈروں اوروڈیروں کی گہری سازش ہے کہ وہ دیامر کے عوام کو اندھا رکھیں اور نوجوانوں کو تعلیم و آگاہی سے محروم رکھیں مگر یہ سازش دیر تک نہیں چل سکتی۔دیامر کے آفیسرز یہاں نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے۔بہتوں کو جانتا ہوں جو تنخواہ دیامر کے بجٹ سے لیتے ہیں لیکن کام کہیں اور کرتے ہیں۔میڈیامیں دیامر کے سلگتے مسائل ڈسکس نہیں ہوتے۔یہاں کی محرومیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا ۔سرکاری کرپشن اور عوام کے ساتھ ناروا سلوک پر مبنی چیزوں کی ڈاکومنٹری نہیں بنتی اور نہ ہی کسی اخبار کی سپر لیڈ ہوتی ہے۔حکومت دیامرکے ترقیاتی کاموں میں ہونے والی کرپشن کو اہمیت ہی نہیں دیتی بلکہ گریٹر اسکیم اور واپڈا جیسے اداروں کو ملی بھگت سے برباد کرنے والوں کو اسمبلی میں وزارتیں دی جاتی ہیں اور یہی وزیر و مشیر کرپٹ عناصر کی پروموشن اوراچھے عہدوں کے لیے لابنگ کرتے ہیں اور انتظامی طور پر ان کی دفاع کرتے ہیں۔پورے دیامرمیں مخصوص وڈیروں نے غریب عوام کی زندگی مصیبت بناکر رکھ دی ہے اور حکومت ان کی پشت پناہی کررہی اور میڈیا میں ان کی خبروں کو اہمیت سے زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ دیامر کے علماء اور دانشور بھی ان کرپٹ عناصر اور ظالم وڈیروں کے مداح ہیں اورانہیں کے گِن گانے میں مصروف ہیں۔جب انہی جیسے ملے جلے حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور مجھے دیامر ڈوبتے نظر آتا ہے۔اور دیامر کے ڈوبنے اور ڈوبانے میں ہم میں سے ہر ایک نے حصہ لیا ہے۔ہمیں ایسی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے۔آؤ ! دل سے عہد کرتے ہیں کہ ہم سب دیامر کے ساتھ محبت کریں، اس کی تعمیر و ترقی میں مثبت حصہ ڈالیں اوران کی محرومیوں اور تنزلیوں کو اپنی محرومیاں اور تنزلیاں سمجھیں اوران کی خوشیوں میں بھرپور حصہ لیں۔سچ کہتا ہوں دیامر کی ترقی جی بی کی ترقی ہے دیامر خوشحال ہے تو جی بی خوشخال ہے۔دیامر کا تعلیمی اسٹریکچر تباہی کے دھانے کھڑا ہے۔ وزیر اعلیٰ، وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا۔اگر دیامر کے تعلیمی اسٹریکچر کو کامیاب بنایا گیا تو دیامر میں تبدیلی ہنگامی بنیادوں پر آسکتی ہے مگر اس کے لیے کوئی ایک طبقہ بھی تیار نہیں۔اس سے بڑی تباہی کی کیا بات ہوگی کہ گلگت بلتستان کی تیسری بڑی کالج، ڈگری کالج چلاس میں پڑھانے کے لیے اساتذہ نہیں اور طلبہ کے لیے لیٹرین کی سہولت موجود نہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں