620

آغاخان ہائیرسکینڈری سکول گلگت کے پرنسپل شمس الحق کے اعزازمیں الوداعی تقریب

گلگت / آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت کے پرنسپل شمس الحق کے اکیڈمک ایڈوائزر کے عہدے پر آغا خان ایجوکیشن آفس گلگت تقریری پر ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں سکول کے پانچ سو پچاس طلبا کے علاوہ سابق طلبا ، سکول انتظامیہ ، فیکلٹٰی ممبرز اور سپورٹ اسٹاف نے تقریب میں شرکت کی۔اس تقریب کا اہتمامسکول کے طلبا نے کیا تھا۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد طلبا اور اساتذہ نے موصوف کی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنے اپنے انداز سے عقیدت مندی کا اظہار کیا۔ شرکاء محفل نے ادارے کے پرنسپل شمس الحق کی خدمات کو تاریخ کے آئنے میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نے مارج ۹۹۹۱ کو اْردو مضمون کے لیکچرار کے طور پر اپنی خدمات کا اغاز کیا۔ اْردو کی تدریس کے ساتھ ساتھ طلبا کو ہم نصابی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہوئے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ممکنہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے، ڈراموں ، تقاریز، بحث مباحثے، انٹر ویوز اور شاعری کے ذریعے طلبا کوآنے والے زمانے کے لئے تیار کرنے میں کلیدی کر دار ادا کیا۔ درس و تدریس کے علاوہ سکول کی ترقی میں سکول انتظامیہ کی جانب سے تفویض شدہ تمام زمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ دوران تدریس موصوف نے درج زیل امور کی انجام دہی میں اپنا لوہا منوایا۔ ان کی شاندار خدمات میں مارچ ۹۹۹۹۱ کو جب سکول پہلی مرتبہ مصروف عمل ہوا تو لائبریری میں صرف ۰۲ کتابیں تھیں۔ موصوف نے گلگت کی سرکاری لائبریری سے ہفتے

میں ۰۱ کتابیں اپنے نام پر حاصل کرکے آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کیلئے کتابیں خریدنے تک طلبا کے مطالعے کے عمل کو جاری رکھا۔طلبا کی انجمن ’’ترقی زبان اردو‘‘ کے پیٹرن کے طور پر اْن کی شاندار خدمات پانچ سالوں پر محیط ہیں۔ جس میں ڈرامہ نگاری ، افسانہ نگاری اور شاعری کے علاوہ ریڈیو گلگت میں اپنے سکول کے طلبا سے اردو میں پروگرام کروانا اور مشہور زمانہ ریڈیو پروگرام ’’ ریڈیو آپ کی دنیا‘‘ وائس اف امریکہ سے ہفتہ وار نشر ہونے والے ادبی پرورام ’’ صدا رنگ ‘‘ میں آغا خان ہائیر سیکنڈیر کی شرکت کو ممکن بنانا قابل ذکر ہیں۔ان ہم نصابی سرگرمیوں کے علاوہ موصوف نے اٹینڈنس کمیٹی کی سرباہی کی اور طلبا کی سکول حاضریوں کو درست کرنے کے اعزار میں کئی مرتبہ ادارے کی جانب سے تعریفی اسناد سے نوازے گئے۔ سکول ہذا میں طلبا کا داخلہ ایک مشکل سرگرمی ہے جہاں انتہائی ذمہ داری سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اْن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ سکول میں داخلوں کی زمہ داری کے عہدے پر فائز تھے تو ان کے اپنے بچے نے بھی امتحان میں شرکت کی تھی اور صرف ۵۔۲ نمبروں سے ادارے میں داخلے سے رہ گیا تھا۔ اْن

کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ کسی نے اْن سے پوچھا کہ آپ ادارے میں رہتے ہوے اگر اپنے بچے کو ایک نمبر نہیں دے سکتے تو قوم کے لئے کیا کر سکتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا تھا ’’ میری اولاد اور میری قوم اگر کوئی ہے تو وہ میرٹ ہے ‘‘ اسی طرح ۳۱۰۲ کو موصوف کو ادارے کا وائس پرنسپل بنا دیا گیا جس میں انہوں نے انتہائی نا مساعد حالات میں سکول کو سنھبالا دیا یہ وہ حلالات تھے کہ عین سالانہ امتحانات کے قریبی دنوں ادارے کے پرنسپل نے اچانک اسعفی دیا تھا تو یہ بار گراں موصوف نے اپنے شانوں پر لے لی۔ اور مشکل حالات میں سکول کو چلایا۔ ۶۱۰۲ میں پرنسپل کی ممکمل زمہ داریاں سونپی گئیں اور یہ وہ دور تھا جب گورنمنٹ میں لیکچرارشپ کی بہت ساری ملازمتیں آئیں اور سکول ہذا کے اساتذہ کی بہت بڑی تعداد مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہوئی اور سکول کو ایک بار پھر بڑا دھچکا لگا۔ لیکن صاحب موصوف نے ذاتی تعلق کی بنا پر اچھے پیشہ وروں کا قلیل مدتی انتخاب عمل میں لایا اور سکول بہتر خطوط پر چلتا رہا۔ مزکورہ خیلات کا اظہار ادارے کے سنئیر لیکچرار اور سابق طلبا نے تقریب کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سکول ہذا کے طلبا نے تبدیلہونے والے پرنسپل شمس الحق کی گزشتہ اٹھارہ سالوں پر محیط خدمات پر روشنی ڈالی اور اپن انشا کی مشہور زمانہ غزل ’’ انشا جی اْٹھو اب کوچ کرو‘‘ ا?ْپ کے نام کر کے مل کے گائی گئی اور یہ پر وقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

نیوزبائی اوصاف گلگت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں