241

داد بیداد ۔۔۔۔۔ماسٹر پلا ن ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

جدید دنیا کو درپیش مسائل اور اُن کا حل آج کل کے دانشوروں کا پسندیدہ ترین مو ضوع ہے یہ عالمی سطح سے لیکر محلہ اور گلی کی سطح تک زیر بحث ہے کہ مو جو دہ دور کے بحرانوں سے کس طرح نکلا جائے آج کے انسان کو سکون ، امن،ترقی اور فلا ح کی زندگی کیسے نصیب ہو؟ کہا جا تا ہے کہ سا ئنسی تر قی کی بدو لت انسان نے ہو امیں اڑ نا سیکھا ، سمندر کی تہوں میں غو طے لگا نا سیکھا مگر زمین پر”انسان “بن کر رہنے کا ڈھنگ نہ سیکھ سکا پشاور ، لاہو ر ، کراچی، تہران ، بغداد ، لندن ، اور پیرس میں بے شما ردانشور اس مسلے پر سوچ بچار کر رہے ہونگے خیبر پختونخوا کے مضا فات میں لوئر دیر تیمر گرہ کے نو جوان لکھاری ، دانشور اور قا نون دان سلیمان شاہد نے دور جدید میں انسان کو در پیش مسا ئل کو ایک پا کستانی کے نقطہ نظر سے دیکھا ، پر کھا اور جانچا ہے اُ ن کی کتاب “ما سٹر پلان “محض کتاب نہیں ایک سیا سی منشور ، ایک عالمی گائیڈ اور ایک گلوبل ایجنڈا ہے ان کا کہنا ہے کہ “آج تر قی کے موا قع اور صلا حیت آزما ئی کے لحا ظ سے مغربی بچہ خو ش قسمت ہے اور ایشیا ئی یا افریقی بچہ بحرانوں اور بد امنی کی فضا میں جنم لیتا ہے سیا سی اور مذہبی تعصب کی وجہ سے تہذیبی ٹکراؤ نے جنم لیا ہے یہ سیا رہ ایک جا نب قیا مت کی جا نب گامزن ہے تو دوسری جا نب جو ہری ہتھیاروں سے لیس طاقتیں کرّ ہ ارض پر مفا ہمت کی بجائے جنگی جنوں میں مبتلا نظر آتی ہیں امریکہ ، روس اور چین کے درمیان سپر پا ور بننے کی دوڑ تین ہزار سال پرانی یو نا نی ، مصری اور رومی طرز سیا ست کا قدیم فلسفہ ہے نئی صدی اس کی متحمل ہر گز نہیں ہو سکتی سپر پا ور کی اس دوڑ میں حکو متیں کمزور ، عالمی فرم اور تجا رتی کمپنیاں با اثر بنتی جا رہی ہیں اس ریس میں دنیا منقسم ہے ، ایجنسیاں باہمی ٹکراؤ میں ہیں “عالمی مسائل کا یہ نقشہ پہلی بار سامنے نہیں آیا یہ نقشہ پہلے سے مو جود ہے گزشتہ صدی کی چار عالمی جنگیں اور مو جودہ صدی کی تین عالمی جنگیں اس بحران کے ثبوت کے لئے کا فی ہیں پہلی جنگ عظیم 1914، دوسری جنگ عظیم 1939، تیسری جنگ عظیم 1980جبکہ چو تھی جنگ عظیم 1990ء میں لڑی گئی تھی مو جودہ صدی کی پہلی عالمی جنگ 2001ء میں جبکہ دوسری عالمی جنگ 2003ء میں لڑ ی گئی افغانستان اور عراق میں عالمی طا قتوں کے ٹکراؤ کے بعدشام اور یمن میں عالمی طاقتوں کی جنگ گزشتہ سات سا لوں سے جاری ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کا قیام تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لئے عمل میں آیا تھا لیکن اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے 5عالمی جنگیں مزید لڑی گئیں اس تا ریخی تنا ظر میں مصنف کی رائے یہ ہے کہ اگر جمہو ریت جدید دور کا فلسفہ ہے اگر جمہو ری نظام مو جودہ دور کا بہترین سیا سی طرز حکومت ہے تو اس کا نمو نہ اقوام متحدہ کی تنظیم میں دکھا یا جائے اقوام متحدہ کا ہیڈ کو ارٹر نیویارک سے نیپال ، تھائی لینڈ ، میانمر یا کسی اور غیر جانبدار ملک میں منتقل کیا جائے ویٹو پاور کا خا تمہ کر کے اکثر یتی رائے کی بنیاد پر فیصلوں کی اجا زت دی جائے تاکہ عالمی تنظیم 5بڑی طا قتوں کے چنگل سے آزاد ہو کر عالمی مسائل کو حل کر نے کے قا بل ہو سکے
وطن عزیز پا کستان کو درپیش مسا ئل کے حوالے سے مصنف نے بڑی عرق ریزی کی ہے انہوں نے اس نکتے پر زور دیاہے کہ ہمارا حقیقی بحران قیادت اور آئین کا بحران ہے پڑوسی ملک بھارت کا آئین آزادی کے 5ماہ بعد منظور ہوا فوری طور پر 26جنوری 1948کو اسے نا فذ کرکے اس تاریخ کویوم جمہوریہ قرار دیا گیا سلیمان شاہد ایڈو کیٹ کی کتاب 2016ء میں شا ئع ہو ئی ہے 2013ء میں صو بے کے اندر تحریک انصاف کی حکو مت آئی ٹھی تبدیلی کا ایجنڈا بھی آیا تھا کتاب میں نئے پا کستان کے حوالے سے ایسا ایجنڈا دیا گیا ہے جو صرف تحریک انصاف کا ایجنڈا ہو سکتا ہے تاہم دانستہ طور پر کسی سیا سی جماعت کا نام لئے بغیر اس کو ملکی ترقی کا نیا تصور قرار دیا گیا ہے اس ما سٹر پلان کا نقشہ تین حصوں پر مشتمل ہے سولہ اہم شعبوں کے مسائل کا تجزیہ ، ہر شعبے کے مسائل مشکلات اور وجو ہا ت کا جائزہ لیکر آخر میں 50یا 60یا100 نکات پر مشتمل لائحہ عمل دیا گیا ہے جو ایک حل ہے یہ حصہ کسی ٹاسک فورس کی سفارشات کی طرح مر تب کیا گیا ہے یہاں دو شعبوں کی مثال دینا بے محل نہیں ہو گا زراعت کے شعبے میں اپنے لائحہ عمل کی وضا حت کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے “یو رپ میں ہمارے ملک کے اضلاع اور ڈویژنوں کے برابر ممالک عالمی منڈیوں میں پھلوں اور سبزیوں پر اربوں ڈالر کی سرما یہ کا ری کرتے ہیں ہا لینڈ جیسا چھوٹا ملک 5ارب ڈالر کے لگ بھگ پھل ہر سال بر آمد کر تاہے ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود نا قص منصو بہ بندی کی وجہ سے پھلوں اور سبزیوں میں خود کفیل ہونے کے بجائے درآمد ات پر انحصار کر تے ہیں ” آگے جا کر لکھتے ہیں “ضلعی اور ڈویژنل سطح پر ہمیں سینگڑوں با غات کا ہدف رکھنا چاہئیے زر عی یو نیور سٹی کی تحقیقی اور عوامی جمہو ریہ چین کی وسا طت سے ہمیں نئے پھلوں پر تجربات کر نے چاہئیں “اس طر ح جنگلی حیات کے تحفظ پر اظہار خیال کر تے ہوئے لکھتے ہیں “والی سوات ، نواب دیر اور مہتر چترال نے اپنی ریا ستوں میں جنگلی حیات کو انتہا ئی اعلٰی پیمانے کا تحفظ دیا تھا وہ غیر قا نو نی شکار پر بھاری جر مانے لیتے تھے لیکن جب پاکستان کے ساتھ ان ریا ستوں کا الحا ق ہوا اور جنگلی حیات کے ادارے قیام میں لائے گئے تو بجائے ان جا نوروں اور پرندوں کی افزائش نسل کے یہی ادارے جنگلی حیات کے لئے زہر قا تل بن گئے “ما سٹر پلان600صفحوں کی مفید کتاب ہے اس کی واحد خا می یہ ہے کہ اردو میں ہے ہمارے پا لیسی ساز اردونہ پڑ ھتے ہیں نہ لکھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی انگریزی تلخیص 50صفحوں میں شا ئع کر کے پا لیسی سازوں میں تقسیم کی جا ئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں