466

سزااورجزاء کاتصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:اورنگریب شہزاد

سزااورجزاء کے تصورکے بغیرکوئی بھی معاشرہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتاہے ۔معاشرتی اقدار،نظم ونسق،خیروشراورنیک وبدمیں تمیزکرنے کے لئے طریقہ کار،اصول،میزان اورقانون مرتب کیاجاتاہے۔تاکہ ان کے ذریعہ معاشرے کوبہتراندازمیں چلایاجاسکے۔رسوم ورواج کی بھی بہت سے ممالک میں بڑی اہمیت ہے۔تاہم آفاقی وین کی حیثیت سے اسلام میں معاشرتی اقدارکوبڑی اہمیت حاصل ہے۔اسلام تصورسزااورجزاء پرزوردیتاہے۔تاکہ معاشرے میں بے چینی ،پریشانی اورہجانی کیفیت کوروکاجاسکے۔اچھائی پھیلانااوربرائی کاقلع قمع کرنااسلام کابنیادی اصول ہے۔اگردورحاضرمیں مختلف تہذیبوں یامعاشروں کاجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اسلامی دنیامیں سزاوجزاء کے قانون پراسکی روح کے مطابق عمل درآمدنہیں کیاجانا جسکی وجہ سے لاقانونیت کابازارگرم ہے۔کسی مجرم کوبروقت سزانہیں دی جاتی جس کی وجہ سے دوسرے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔کسی قابل رشک اوراجتماعی بھلائی کے کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے نیک صفت لوگ بھی مایوسی کاشکارہوجاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں امریکہ میں ایک مونگ پھلی فروش کومحض اس بات پر28سال کی سزاسنائی گی کہ وہ خراب مونگ پھلی بیچ رہاتھا،جسے کھانے سے کئی لوگ بیمارپڑگئے۔ان لوگوں کی شکایت پرمونگ پھلی کے ٹیسٹ کے گئے ۔ٹیسٹ رپورٹ میں مونگ پھلیوں کومضرصحت قراردیاگیا۔اوربیچنے والے پرمقدمہ چلایابالاآخراس کو28سال کی سزاہوئی۔اسی کانام قانون کی حکمرانی ہے اورشہری قانون کے اخترام پرمجبورہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں مردہ جانواروں کاگوشت بیجاجاتاہے۔پچھلے دنوں کراچی سے گدھوں اورکتوں کے کھالیں بڑی مقدارمیں پکڑی گئیں۔پولیس نے مجرموں کوپکڑلیااورگوشت کے بارے میں مجرموں سے پوچھاتونہوں نے بتایاکہ گوشت کراچی کے پوش علاقوں میں فروخت کیا۔کیامہذب معاشرے میں اس کاکوئی تصورکرسکتاہے۔دن دیہاڑے ڈکیتی ہوتی ہے،بے گناہ قتل کئے جاتے ہی،بچوں اوربچیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ،کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔قوانیں توموجودہیں لیکن عمل درآمدکون کریں؟
اگرمضرصحت مونگ پھلی بیچناجرم ہے توپھرمضرصحت دودھ ،گوشت،فروٹ،بیکری،سبزیان،چیپس وغیرہ بیچناکیوں جرم نہیں گرواناجاتاہے۔آج کل ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سکول کے بچوں کوچیپس چاکلیٹ اوردوسری اشیائے خوردونوش کے ذریعے ان کے نازک ہاضمے کوتباہ کرنے پرتولے ہوئے دکانداروں یاان اشیاء کوتیارکرنے والی فیکٹروں کے مالکان سے کوئی پوچھنے والانہیں مصالہ جات ،چائیے کی پتی ،صابن شیمپووغیرہ دونمبری ہی فروخت ہوتے ہیں۔لیکن انتظامیہ چپ کاروزہ سادھ رکھی ہے۔آئیے ہم سب مل کرعہدکریں کہ ہرایک اپناحصۃ ڈالکرمعاشرے کوسدھارنے اورمعاشرتی وسماجی برائیوں کوروکنے کے لئے کام کریں گے۔یہ مت سوچناکہ میرے اکیلے کرنے سے کیاہوگا۔نیکی پھیلانے والے کم اورشرپھیلانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔لیکن نیکی پھیلانے والوں کے ساتھ رب ذوالجلال کے مدد شامل ہوتی ہے۔
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں