203

اتفاق واتحادکا داعی جوارِ رحمت میں

تحریر : مدثر سبحانی۔۔۔

سمجھ میں نہیں آرہا کیا لکھوں مولانا سمیع الحق کے ساتھ جو ظلم ہوا اس کی مذمت کے لیے کوئی الفاظ ہیں نہ ہی اس بربریت اور سفاکی کی کوئی نظیر ملتی ہے۔ مولانا سمیع الحق کی رحلت وہ سانحہ جانکاہ ہے جس کے باعث پوری قوم’’ سکتے‘‘ کی حالت میں ہے ایسا بہیمانہ ظلم جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا،درد کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے جو کبھی رکنے کا نام تک نہ لے گی۔ایسا دھواں اٹھا ہے جو ختم ہونے کا نام تک نہ لے گا۔ایسا اندھیرا چھا گیا ہے جو روشنی کا نام تک نہ لے گا۔ایسا پل ٹوٹا ہے جو کبھی جڑنے کا نام تک نہ لے گا۔آگ کا ایسا شعلہ بھڑکا ہے جو کبھی بجھنے کا نام تک نہ لے گا۔ایسے جذبات ابھرے ہیں جو کبھی ختم ہونے کا نام تک نہ لیں گے۔ دکھ کی یہ لہر ہر فرد کے قلب و جگر میں اتر چکی ہے… ہر شخص دل گرفتہ، ہر روح بے چین اور احساس رکھنے والی ہر آنکھ پر نم ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لوگ غم زدہ ہوئے، پاکستان کا نہ صرف کونا کونا اداس ہوا بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی پاکستانی تھا، وہ رویا، بہت رویا۔
شدید اذیت کی کیفیت میں ہر احساس مند جھنجوڑ کر ایک ہی سوال کررہا ہے۔ پوری قوم کو خون اور آنسوؤں میں ڈبونے والے ان سفاک درندوں کا مذہب کیا ہے؟ کوئی اتنا سفاک ہوسکتا ہے جوبزرگ کے خون سے ہاتھ رنگے۔ ظالمو!کیوں ایسے ادھیڑ عمر شخص کو شہید کردیا جو سماج میں امن و سلامتی اور حق گوئی کا داعی تھا؟
مولانا سمیع الحق 18دسمبر 1937ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے ، اور 1946ء میں دارلعلوم حقانیہ سے تعلیم کا باقائدہ آغاز کیا،یہاں سے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو میں بھی کلام کرتے تھے۔ان کے والد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا شمار برصغیر کے جید علمائے دین میں ہوتا تھا، جنہوں نے اکوڑہ خٹک میں ممتاز دینی درسگاہ دارلعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی۔ مولانا عبدالحق نے 1970ء میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کوشکست دی، مولانا عبدالحق 1970ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا، مولانا 1988ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم بنے اور1985سے 1997 تک دو دفعہ سینیٹ کے رکن بھی رہے۔وہ 2002میں بھی ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے اور 2008تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور متحدہ مجلس عمل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔وہ جمعیت علما اسلام(س) اوراسلامی جمہوری اتحاد کے بانی ،دفاع افغانستان اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔آپ ملکی اور عالمی سطح پر بننے والے ہر مذہبی اتحاد کا حصہ ہوتے تھے اور ہر سیاسی محاذ پر متحرک ہوا کرتے تھے۔
مولانا سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتبہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانا جاتا ہے اور مولانا شہید سے ہزاروں کی تعداد میں شاگردوں نے علم حاصل کیا۔کئی طالبان رہنماوں کو بھی ان کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔مولانا سمیع الحق شہید کے طالبان پر اثر و رسوخ کے سبب افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام کاان سے بارہا مطالبہ رہا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔یہ مولانا سمیع الحق ہی تھے جنھوں نے پاکستان میں پہلا شریعت بل تیار کرکے سینیٹ سے منظور کرایاتھا اور2013میں جب خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں طالبان نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی لگائی تھی تو اس وقت انہوںنے آگے بڑھ کر نہ صرف پولیو ویکسی نیشن کے حق میں فتویٰ دیا بلکہ خود مہم میں حصہ بھی لیا۔
مولانا سمیع الحق کو ہمیشہ اس فکر نے ستایا کہ کیسے مسلمانوںکو آپس میں یکجاکیا جائے۔وہ ہمیشہ امن کے فروغ کی بات کرتے تھے۔وہ نفرت بانٹنے کی بجائے محبت بانٹتے تھے۔وہ ملکی اور عالمی حالات پر ایک جرات مندانہ موقف اختیار کیا کرتے تھے۔ مثبت سوچ اور تعمیری فکر ہی وجہ ہے کہ مولانا سمیع الحق شہید کو اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی، سیاستدانوں، مذہبی اور سماجی حلقوںحتیٰ کہ ہر جگہ پسند کیا جاتا تھا۔آپ کی دینی علمی ادبی تحقیقی خدمات کابھی کوئی شمار نہیں۔ آپ کے بے شمار علمی کارناموں میں ماہنامہ الحق کی مسلسل اشاعت ، خطباتِ مشاہیر اور مکتوبات مشاہیر جیسی ضخیم کتابیں آپ ہی کا شاہکار ہیں۔
ہم بلا جھجک یہ کہہ سکتے ہیںکہ مولانا نے جس بھی شعبہ زندگی میں قدم رکھا وہاں نہ صرف اپنا لوہا منوایا بلکہ دوسروں کیلئے بھی مشعل ِ راہ بنے ،بہادری اور جرات کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ عقل بھی دنگ رہ گئی۔مولانا سمیع الحق منبر رسولؐ کے محافظ،حق و سچ کے پاسدار ،ہمت، جرات اور استقامت کا استعارہ تھے۔ وہ ایسا بادل تھے جو بلا تخصیص ہرایک پر برسے۔ خداوند کے خاص کرم و رحمت سے دنیاکے ہر کونے میں انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی مذہبی آبیاری کی اور ان کی سوچ و فہم کو جلا بخشی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت سے پورے پاکستان و عالم ِ اسلام نے ایک جید عالم دین، عظیم قائد،خطیب، مفکر،مدبر،سرپرست اورشریعت کا ترجمان کھو دیا ہے،ان کی وفات علمی دنیا میں ایک بڑا خسارہ ہے۔ مولانا سمیع الحق ایک عظیم شخصیت تھے ان کی دینی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
موت تو ہرذی روح کو آنی ہے۔ زندگی کو جس طرح مولانا سمیع الحق نے گزارا اُس پر رَشک کیا جا سکتا ہے، اُس کی آرزو کی جا سکتی ہے ، ہر دِل تمنا کر سکتا ہے ۔ ہم اللہ کے حضور دستِ بدعا ہیںکہ اللہ کریم آپ کو جنت الفردوس میں وہ اعلیٰ مقام عطا کرے جس کا وعدہ اُس نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھا ہے۔ان کے لواحقین اور شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اورمولانا سمیع الحق شہید کے سفاک قاتلوں کو عبرت کی مثال بنائے۔ آمین یارب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں