267

آہ خالد۔۔۔۔۔……تحریر:عنایت اللہ سیر سماجی کارکن

خالد بن ولی ہی نہیں خود ولی تھے وہ بعض و کیناہ و بیر حسد سے خالی تھے وہ:ایے زرہ غور کرتے ھیں کہ کیا ہم خالد کی شھادت کے بعد اس کے مشن کو مرنے دینگے
نہیں ہر گز نہیں تو پھر جن بڑے بڑے ارادوں کا اس نے اپنی ذندگی میں جس جس دوست کے ساتھ تذکرہ کیا تھا مثالکے طور پر شندور پولو فیسٹیویل کو بین الاقوامی حیثیت دینا,سویل سروس اکیڈیمی,کیریر کونسیلنگ,ای ایس ایس بی کی تیاری ان سب کو یکجاء کرتے ہیں اور پھر خالد فاونڈیشن کے قیام کی فکر کرتے یں اور اس کے چالیس واں کے دن اس فاونڈیشن کے قیام کا اعلان کرکے اس کے تمام نا تمام ارادوں کی تکمیل کی بنیاد رکھتے ہیں تاکہ جو کجھ بھی ھو اسی کے نام گرامی سے وابستہ ہو
انشاء اللہ تعالی چترال ایجوکیشن براے تعلیم و صحت CAEH جس کے رکن تھے اور بہت سی سرگرمیاں ان کی سرپرستی رھنمای اور مالی تعاون سے CAEH پہلے بھی کر چکی ھیں
اور خیبر یونین ہال اسلامیہ کالج یونیورسٹی جس سے خالد بن ولی وابستہ بھی رہے CAEH بہت جلد ایک ملکی لیویل کےتعزیتی ریفرنس کا انعقاد بھی کریگی
ان تمام سرگرمیوں کا مقصد ان کے لیے ایصال ثواب کی دعاء اور اس کے بعض کیناہ دوشمنی اور حسد اور غرور سے پاک روادار,خاطرمند,صابرانہ مدبرانہ ,موادبانہ با اخلاق مالدار,خوبصورت اور جوان ہوتے ہوئے پاکیزہ معصومانہ ذندگی کے نمایان پہلووں پر مقالات پیش کیے جاینگے اور اس کے زندگی کے بچپن سے لیکر اخیری دم تک بچپن جوانی دوستی افسر اور بھائی بیٹے کی حیثیت سے اس میں کونسی خوبیاں یکجاء ہوگی تھیں جو اسے ہر خاص وعام میں چھوٹے بڑے میں مقبول کیا کہ 36 سال کی عمر میں اس کے آخری رخصتی کے لیے چترال گلگت بلتستان پشاور چکوال لاھور دیر سوات سے عوام الناس کا ٹھاٹھین مارتا سمندر پولو گراونڈ چترال میں امڈ آیا اور ہرآنکھ پرنم اور ہر دل غم سے نڈھال
اخر اس نوجوان خالد بن ولی کی خصوصیات کیا تھیں
According to Dr Gulzar “he was the friend of three ganarations”
It was practically happen with me he was the respected friend with me 66 years he was the friend of my sons Mr Fazlullah and Ehsanullah of 28,and 40 years he was beloved and honored to my grand sons students of Bs Degree College Chitral
یہ تو میں نے ایک اپنے گھر کی مثال دی ان کے جنازے میں میں میرا بیٹا اور میرے پوتے کھڑے تھے
یہی حال بہت سے گھرانوں کا تھا اخر وہ کونسا کمال اس میں تھا کہ اس کے لیے چترال کے ہرگھر میں لوگ اشکبار تھے
جس کے نماز جنازہ کے لیے چترال پولو گراونڈ کا دامن تنگ پڑ جایے تو پھر اس کے کردار میں کوئی کمال ضرور ہوگا کیا اس کا دوست دشمن امیر و غریب بچے بوڑھے اپنے پرانے افسر اور کلاس 4 سب سے مسکراکر ملنا ہی اس کا کمال تھا خدمت اور عزت دینے میں وہ کمال رکھتے تھے اور یہ تربیت اس نے کہاں سے حاصل کی تھی لگتا ہے یہ کمال اس عظیم شھید ماں ہے جس کے پاک دامن میں اس کم عمر نامور خالد کی پرورش ہوئی تھی اس کی مہرو وفاء اور طرز تربیت کو سلام اور پھر اس کے عظیم باپ کو سلام جس نے ماں کے حادثاتی شہادت کے بعد ان بچوں کو ماں کے سایے کی کمی کو محسوس ہونے نہیں دیا
ان تمام سوالوں کا جواب
صرف” خالد فاونڈیشن” کا قیام تاکہ اس کے ذندگی کے قابل تقلید پہلووں کو اُجاگر کیا جاسکے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں