261

خاموش ہوگیا چمن بولتا بولتا….. تحریر: مدثر سبحانی

صبح کا وقت تھا،مصروفیات سے فارغ ہوکر عادتاً موبائل کا انٹرنیٹ آن کیا تو واٹس ایپ، فیس بک پر ڈھیروں نوٹیفکیشن اور میسجز آنے شروع ہوگئے۔ واٹس ایپ آن کرنے کے بعدایک گروپ میں میسج پڑھا کہ مولانا حاجی عبدالوہاب امیر تبلیغی جماعت قضائے الٰہی سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔مجھے یقین نہ آیا کیوں کہ سوشل میڈیا پر تقریباً سچی بات کم ہی ملتی ہے ، تصدیق کے لیے فوراً مولانا نادر صاحب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ واقعتا یہ خبر سچی ہے کہ مولانا عبدالوہاب بھی اس سفر پر روانہ ہوگئے جواس عالم رنگ وبو میں سانس لینے والے ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو بھی اس جہاں میں آیا، اسے بہر طور یہاں سے رخصت ہونا ہی ہے۔ موت سے نہ پہلے کوئی بچنے کی راہ ڈھونڈ پایا اور نہ ہی کوئی اس سے بچ پائے گا۔جیسے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:’’تم جہاں کہیں بھی ہوگے، موت تمہیں پالے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو‘‘۔(النساء)
حاجی عبدالوہاب رحمہ اللہ کو بھی اس دنیا سے رخصت ہونا تھا، وہ اس دنیائے دوں کی اسیری ترک کرکے فرشتہ اجل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خلد بریں کے راہی ہوگئے۔ اس عارضی دنیا سے ان کی رخصتی ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو اشک بار کر گئی۔ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے کروڑوں افراد نے ان کی وفات کے صدمے کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے محسوس کیا۔بعض لوگ جب اس کاروان زندگی سے الگ ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ چمن سونا سونا ہے اور اداسی ہر طرف ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ ایک ویرانی سی محسوس ہوتی ہے، ایسی ہی عظیم شخصیات میں مولانا عبدالوہاب بھی ہیں۔یہ احساس مدتوں تازہ رہے گااور رنج والم کی کسک تادیر رگ وپے میں سرائیت کرتی رہے گی۔
امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب یکم جنوری 1923ء(بعض کے مطابق1922ء) کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ انجمن راجپوتان اسلام انڈیا کے جنرل سیکریٹری حافظ عاشق حسین رحمہ اللہ آپ کے والد گرامی تھے، مبلغ اسلام محترم حاجی صاحب نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگریز دور میں بحیثیت تحصیلدار عملی زندگی کا آغاز کیا، آپ کی پرورش وتربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی،جس کی وجہ سے آپ نے اس پیشہ کو تھوڑی ہی مدت بعد خیر بعد کہہ دیا۔قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے آبا ؤاجداد کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے جید علماء کی صحبت خوب فیض حاصل کرنے کے بعد دینی جماعت سے وابستہ ہو گئے۔تبلیغی جماعت میں باقاعدہ شمولیت سے قبل حاجی صاحب نے ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعت’’ مجلس احرار اسلام‘‘ کے سرگرم کارکن کے طور پر بھی کام کیا جبکہ تقسیم ہند کے بعد وہ بورے والا میں مجلس کے امیر بھی رہے اور ’’تبلیغی جماعت کے تیسرے امیربنے‘‘۔
حاجی عبدالوہاب مرحوم اخلاق وشائستگی ، بلند حوصلگی، وضعداری وپاسداری، سادگی وانکساری کا پیکر مجسم تھے۔آپ کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ صفت تھی، جس کی مثال اس زمانے میں ناپید ہے۔ آپ عالم باعمل تھے۔ اس وجہ سے عالم اسلام میں نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔آپ نے اپنی زندگی کا ہرہر لمحہ اللہ اور اس کے رسول پاک ؐکے دین کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا تھا۔آپ حضور اکرمؐ کا پیغام دنیا میں ہر جگہ پہنچانا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپ انتہائی غمگین وپریشان اور فکر میں ڈوبے رہتے تھے ۔حاجی عبدالوہاب نے زندگی بھر اخلاق ومحبت، خلوص اور وحدت امت کا درس دیا،امت مسلمہ کو فرقوں میں بانٹنے کی بجائے ایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد کی، زندگی کی آخری سانس تک ہر کام اللہ سے ہونے کے یقین کی دعوت دیتے رہے،آپ رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق وفجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد کو اس تبلیغ جماعت کے ذریعے سے تہجد گزار، متقی وپرہیز گار بنایا اورآپ رحمہ اللہ کی دعا سے لوگوں کو دلی سکون ملتا تھا۔
مولانا مرحوم نے اپنی حیات مستعار کو جس طرح گزارا ، اس کے ایک ایک لمحے سے جتنا بھر پور استفادہ کیا اور اس کی ایک ایک ساعت کو جس طرح تبلیغ دین میں بتایا، اس نے انہیں یقینی طور پر کروڑوں افراد کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا تھا۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ آپ کی سادہ مگر جاندار تبلیغ دین کا انسانوں کے قلوب واذہان پر اثرات کا مرتب ہونا بدیہی امر تھا، لیکن معاملہ یہیں تک ہی تو محدود نہ تھا، ان کے شخصی اوصاف نے بے پناہ لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔آپ اپنی بات نرمی سے کہتے اور دل میں نقب لگا لیتے ۔ ان سے ایک بار ملنے والا دوسری بار ملنے کی خواہش لیے ان سے جدا ہوتا۔
2014ء میں جب حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بات ہوئی تو طالبان نے دیگر ناموں کے ساتھ حاجی عبد الوہا ب رحمہ اللہ کا نام تجویز کیا تھا۔ آپ کی انصاف اور اصول پسندی کے پیش نظر عالمی طاقتوں نے بھی آپ رحمہ اللہ کے نام پر اتفاق کیا۔یہی وجہ ہے کہ ملک عمان کے تحقیقی ادارے شاہی اسلامی سٹرٹیجک سٹڈی مرکز نے دنیا کے 500با اثر ترین مسلمان شخصیات کی ایک فہرست شائع کی جس میں آپ کا نام گرامی10ویں نمبر پر چمکتا رہا تھا اوراردن کے شاہی اسلامی سٹرٹیجک تحقیقی مرکز نے بھی اسی قسم کی272صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ، جس میں مولانا مرحوم کا نام نمایاں تھا۔
حاجی صاحب کا انتقال عالم اسلام کے لیے ایک المیہ ہے،اسی لیے پوری قوم غمگین اور افسردگی کے عالم میں ہے۔ یہ اتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے، جسے برداشت کرنا شائد ممکن نہیں،مولانا کی وفات سے ملت اسلامیہ کو وحدت امت کا درس دینے والا ایک عظیم ستون گر گیا ہے اورپیدا ہونے والا خلا ء کبھی نہیں پرہو سکتا۔
حضرت حاجی عبدالوہاب رحمہ اللہ نے تقریباً 95برس اس دنیائے رنگ وبو میں گزارے اور ا س کی خوشبوؤں میں بہت سا اضافہ کرکے رخصت ہوئے۔ دنیا کے کونے کونے سے فرزندان توحید پاسبانان اسلام جوق در جوق آپ کی جسد خاکی کی ایک جھلک دیکھنے اور نماز جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے ، آپ کی تدفین کے بعدلاکھوں لوگ اپنی اشک بار آنکھوں سے گھر وں کوواپس لوٹے۔مولانا عبدالوہاب رحمہ اللہ خود تو چلے گئے مگران کی یادوں سے خانۂ دل آباد ہے اوروہ خوب تڑ پائیں گی۔ اب تو صرف ان کا مشن عظیم ’’تبلیغ دین ‘‘کا ساتھ رہ گیا ہے جو ہمیں ان جیسی تڑپ دل میں رکھ کر پورا کرنا ہے۔حاجی صاحب کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے، کہ دنیا میں اپنوں پرایوں سب سے محبت سے پیش آئیں، محبتیں بانٹنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے، دشمنوں کے زہر آلود طنز و تشنیع کا جواب محبت سے دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ان کے کام نے انہیں زندہ وجاوید بنادیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اُن کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرماکر کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی بہاریں نصیب فرمائے ، صلف صالحین و اسلاف کے ساتھ اکٹھا فرمائے اور پسماندگان، کو اس صدمے پر صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں