336

پھر امن کی آشا ۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر 

ہمیں امن کے گیت گاتے، آشاؤں کے دیپ جلاتے 70 برس بیت چکے لیکن جواہرلال نہرو سے نریندر مودی تک کسی بھارتی وزیرِاعظم نے مثبت جواب نہ دیا۔ وجہ اُس کی یہ کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا کردار سب کے سامنے ۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی سرزمین پر ایک تقریب میں بڑے فخر سے اِس کا اقرار بھی کیا۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں 90 فیصد سے زیادہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہی کا ہاتھ پایا جاتاہے۔ پاکستان، بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت اقوامِ عالم کے سامنے پیش کر چکا۔ دہشت گردی میں ملوث بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا آفیسر کلبھوشن یادو آج بھی پاکستان کی قید میں ہے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کو ’’را‘‘ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔ پانی کی تقسیم کے معاملے پر بھارتی خباثتیں سب پر عیاں۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری پر بھارت کے پیٹ میں اُٹھنے والے مروڑ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اِس کے باوجود بھی
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
بینظیر بھٹو نے اِسی امن کی خاطر آزادی پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرکے بدنامی مول لی، میاں نوازشریف نے بھی نریندر مودی کو ’’جادو کی جپھی‘‘ ڈالی تو لوگوں نے ’’مودی کا جو یار ہے، غدارہے، غدار ہے‘‘ جیسے نعروں سے نوازا لیکن جب کبھی امن کی امید پیدا ہوئی، بھارتی امن کی فاختہ ’’پھُر‘‘ سے اُڑ گئی۔ اِس کے باوجود ہمارے لبرل اور سیکولر بھائی یہی درس دیتے رہتے ہیں کہ ’’لگے رہو مُنّا بھائی‘‘۔ اب ’’ہر کہ آمد، عمارتِ نَوساخت‘‘ کے مصداق وزیرِاعظم عمران خاں بھی نئے سرے سے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں حالانکہ وہ میاں نوازشریف کو اِنہی تعلقات کی بحالی کی کوششوں پر موردِالزام ٹھہرایا کرتے تھے۔ کرتارپور راہداری کا سارا کریڈٹ تحریکِ انصاف اپنی جھولی میں ڈال رہی ہے جبکہ حقیقت یہ کہ پاکستان کے ہر حکمران کا کرتارپور راہداری کے بارے میں رویہ ہمیشہ مثبت رہا۔
نارووال کے نواح میں واقع کرتار پور بستی بابا گورونانک نے بسائی جس کا شمار دنیا بھر میں بسنے والے 12کروڑ سکھوں کے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال اسی جگہ گزارے اور یہیں پہ اُن کی آخری آرام گاہ ہے۔ اِسی لیے دربارصاحب کرتارپور سکھوں کا مقدس ترین مقام گردانا جاتا ہے اور اُنہیں اِس میں خاص کشش محسوس ہوتی ہے۔یہ گوردوارہ بھارتی سرحد سے محض 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بھارتی پنجاب کے سکھ سرحد پر کھڑے ہوکر دوربینوں کے ذریعے اپنے اِس مقدس مقام کو دیکھا کرتے تھے۔ یہ راہداری کھولنے کا سکھوں کا دیرینہ مطالبہ تھا لیکن بھارتی حکومت نے ہمیشہ اِس مطالبے کو سَردخانے میں ڈالے رکھا ۔ ضیاء الحق مرحوم کے دَور میں یہ معاملہ زیرِبحث آیا لیکن سکھوں سے شدید نفرت کرنے والی بھارتی وزیرِاعظم اندراگاندھی کسی بھی مثبت پیش رفت کے لیے تیار نہ ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے دَور میں پاکستانی وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی نے بھارت کے سکھ وزیرِاعظم مَن موہن سنگھ کے ساتھ اِس معاملے پر بات کی لیکن بے سود۔ میاں نوازشریف کے دور میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہیں مگر عبث۔ موجودہ وزیرِاعظم عمران خاں نے بھارتی پنجاب کے موجودہ وزیر اورسابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو اپنی حلف برداری کی تقریب پر مدعو کیا۔ نوجوت سنگھ نے ایوانِ صدر میں ہمارے آرمی چیف محترم قمرجاوید باجوہ سے ملاقات پر اُنہیں ’’جپھی‘‘ ڈالی اور درخواست کی کہ کرتارپور راہداری کھول دی جائے تاکہ سکھ اپنے اِس مقدس مقام کی ’’یاترا‘‘ کر سکیں۔ جنرل صاحب کی طرف سے مثبت جواب آنے پر نوجوت سنگھ سدھو نے واپس جاکر اِس معاملے کو اٹھایا۔ نوجوت سنگھ سدھوجو حکمران جماعت بی جے پی کا حصّہ تھے، 2017ء میں کانگرس میں شامل ہوگئے۔ اندراگاندھی کے ایک سکھ کے ہاتھوں قتل کے بعد بھارتی پنجاب میں سکھوں کا قتلِ عام ہوا جس کی بنا پر سکھوں میں کانگرس کے خلاف نفرت عام تھی۔ بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اِس لیے بی جے پی سکھوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کرتارپور راہداری کے لیے تیار ہو گئی ۔ اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اِس راہداری کا سارا کریڈٹ نوجوت سنگھ سدھو کو جاتا ہے۔ اگر بی جے پی کو آمدہ عام انتخابات میں سکھوں کی ناراضی کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی یہ راہداری کھولنے کو تیار نہ ہوتی۔ بھارتی حکومت کی بے بسی کا اندازہ بھارتی وزیرِخارجہ سشماسوراج کی پریس بریفنگ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ’’ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کرتارپور راہداری کا مطلب یہ نہیں کہ دو طرفہ مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔ دوطرفہ بات چیت اور کرتار پور بارڈر دو مختلف معاملات ہیں‘‘۔ سشماسوراج نے نہ صرف سارک کانفرنس میں پاکستان کی دعوت کو مسترد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ بھارتی وزیر سرکاری نہیں ، ذاتی حیثیت میں کرتارپور راہداری کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔دوسری طرف نارووال میں کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خاں نے فرمایا ’’عوام دوستی چاہتے ہیں، بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دوقدم بڑھائے گا۔ دونوں طرف سے غلطیاں ہوئیں، ہمیں اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا ہے‘‘۔ بھارتی وزیرِخارجہ سشماسوراج کے بیان کے بعد ہمارے وزیرِاعظم کا دوستی کے لیے ہاتھ بڑھانا سمجھ سے بالاتر۔ اُنہیں یاد ہوگا کہ تحریکِ انصاف ایسے ہی بیانات پر میاں نوازشریف کو غدار قرار دیا کرتی تھی۔
یوں تو وزیرِاعظم عمران خاں نے گزشتہ 100 دنوں میں 50 یوٹرن لیے جن کی تفصیل روزنامہ جنگ میں شائع ہوچکی (نوازلیگ کے مطابق تحریکِ انصاف کی حکومت نے 100 دنوں میں 100 یوٹرن لیے) ۔ہمارے خیال میں خاں صاحب کا سب سے بڑا یوٹرن پوری شدومد کے ساتھ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ امن کی خواہش رکھنا بری بات ہے (ویسے بھی 2 ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں لا سکتی) ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ اگر امن کی خواہش کے اظہار پر میاں نوازشریف کو ’’مودی کا یار‘‘ قرار دے کر ’’غدار‘‘ کہا جا سکتا ہے تو آج خاں صاحب کو کیا کہا جائے؟۔ چند دن پہلے تو وزیرِاعظم صاحب نے نریندرمودی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر براجمان ہیں لیکن اُنہی ’’چھوٹے لوگوں‘‘ کو ایک دفعہ پھر امن کا پیغام دینے کے بعد ہم یہی کہہ سکتے ہیں ’’اے کشتۂ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا‘‘۔ یہ طے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی حماقت کبھی نہیں کرے گا، یہ بھی عین حقیقت کہ تنازعات کا حل محض مذاکرات کی میز لیکن جب بھارت کسی بھی صورت میں مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں تو پھر بار بار امن کی خواہش اور مذاکرات کی دعوت کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ’’کشمیر کا مألہ بھلا دیا گیا، کرتارپور والی تقریر عمران خاں کی بجائے کوئی دوسرا سیاستدان کرتا تو اُسے غدار قرار دے دیا جاتا‘‘۔
ایک طرف تو وزیرِاعظم صاحب بھارت کو امن، دوستی اور محبت کے پیغام دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف طرفہ تماشہ یہ کہ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کرتارپور راہداری کو عمران خاں کی ’’گُگلی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ کنوینشن سنٹر اسلام آباد میں 100 روزہ کارکردگی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِخارجہ نے کہا ’’29 نومبر کو کرتارپور میں دنیا نے دیکھا کہ وزیرِاعظم عمران خاں نے گُگلی کھیلی اور بھارت کو بادلِ نخواستہ اپنے دو وزیروں کو پاکستان بھیجنا پڑا‘‘۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شاہ محمودقریشی کرتارپور راہداری کا کریڈٹ عمران خاں کو دیتے ہوئے کچھ ’’بہک‘‘ گئے۔ اِسی لیے تحریکِ انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی نے بھی شاہ محمودقریشی کے اِس بیان کو نامناسب قرار دیا۔ اگر شاہ صاحب ایسے ہی بیانات ’’داغتے‘‘ رہے تو پھر ہماری خارجہ پالیسی کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں