281

صدا بصحرا۔۔۔۔۔۔دیواریں گرادو۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

گورنر ہا وس لا ہور کی دیواریں گرانے کی تصاویر اخبارات میں آنے کے بعدپورے ملک میں خو شی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے نو جوا نوں کے بھنگڑے اور تا لیاں دیکھ کر گماں ہو تا ہے کہ لا ل قلعہ فتح ہوا ہے یا تاج محل پا کستان کے ہاتھ آگیا ہے دشمن سے بدلہ لینے کی خو شی میں نو جوان آپے سے با ہر ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی لا ل قلعہ اور تاج محل فتح ہونے سے کم نہیں ہے غلا می کے دور کی ایک بڑی نشانی گرائی جارہی ہے وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ دور غلا می کی تمام نشا نیاں مٹا ئی جائینگی گورنر ہا وس، کمشنر ہا وس کی دیواروں کو گرا کر کمر شل زمینوں پر پلا زے تعمیر کئے جا ئینگے دکا نوں کے پیچھے پارک اور عجا ئب گھر تعمیر ہو نگے تخمینہ یہ ہے کہ گور نر ہا وس لا ہور کی دیوار گرانے کے بعد جو عارضی باڑ لگا ئی جائیگی اُس پر 6کروڑ روپے لا گت آئے گی ملک دشمن عنا صر نے یہ شو شہ بھی چھوڑا ہے کہ گور نر ہا وس کی دیواروں کے ساتھ جو کمر شل زمین ہے یہ ساری جا ئیدادسر کاری بچت مہم کے تحت لیز پر دی جائیگی یہ لیز اُن خوش نصیب افراد کو ملے گی جنہوں نے 2018کے انتخا بات میں حکمران جماعت کی ما لی مدد کی تھی کیونکہ فرمان خدا وندی کی رو سے احسان کا بد لہ احسان ہی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اب تک سر مایے کی واپسی کے انتظار میں ہیں ایک ایسے ہی سر مایہ کار گروپ نے اسلام اباد کی بڑی شاہراہ پر واقع ریڈ یو پا کستان کی 7منزلہ عما رت خرید نے میں دلچسپی ظاہر کی تھی بعض شر پسند عنا صر کی بے جا مدا خلت کی وجہ سے سو دا مو خر کر دیا گیا ہے حکو مت کے مشیر زلفی بخاری کو پکا یقین ہے کہ ریڈیو پا کستان کی عما رت مذکورہ پارٹی کو فروخت کرنے کی اجا زت مل جائیگی اور یہ حکومت پاکستان کے لئے فخر کا مقام ہو گا کہ خلیج سے آنے وا لا سرما یہ کاراسلام اباد کی سر کاری عمارتیں خرید کر ہم پر احسان کرے گا مگر یہ جملہ معترضہ تھا اصل بات دور غلامی کی نشا نیوں کو مٹا نے سے شروع ہوئی ہے مو جودہ حکومت کو پہلی بار احساس ہوا ہے کہ وطن عزیز میں دور غلا می کی نشا نیاں اب تک مو جود ہیں ان کو گرانے اور مٹا نے کی ہمت کسی کو نہیں ہو ئی خدا کا لا کھ لاکھ شکر ہے کہ مو جو دہ حکو مت کو اس کا احساس ہو اہے با با کو ڈا کا خیال ہے کہ ابتدائی مر حلے میں دور غلا می کی عمارتیں گرائی جا رہی ہیں اس کے بعد دیگر نشا نیوں کو بھی مٹا یا جا ئے گا مثلاً جو کام گورنر ہاوس لاہور سے شروع کیا گیا ہے وہ چاروں صو بوں میں دہرا یا جا ئے گا اس کے بعد فو جی چھا و نیوں میں انگریزوں کی بنا ئی ہوئی عما رتیں گرائی جا ئینگی اس کے بعد انگریزوں کے بنا ئے ہوئے سکول اور کا لج بھی گرائے جائینگے زمان پارک لا ہور میں واقع ایچی سن کا لج بھی انگریزوں کے دور کی نشا نی ہے غلا می کی یاد گار ہے ہمارے وزیر اعظم اتنے دیانتدار اور صاف و شفاف کردار کے مالک ہیں کہ اپنے مادر علمی کو بھی نہیں بخشینگے بلکہ گورنر ہا وس کی دیوار کے بعد اُس کو گرا کر زمین بو س کر نے کا حکم دینگے اسی طرح وزیر اعظم کو سکھوں کی بنا ئی ہوئی عما رتیں بھی دور غلامی کی یاد دلا تی ہیں قلعہ اٹک اور قلعہ با لا حصار کو بھی گرانے کا حکم دیا جائے گا اگر وزیر اعظم کو اگلے 20سالوں کے لئے ملک کا اقتدار ملا تو اس ملک میں کوئی پرانی عمارت نظر نہیں آئے گی ان کی جگہ پلا زے اور شا پنگ مال تعمیر ہونگے کیونکہ وزیر اعظم جو کچھ کہتے ہیں سوچ سمجھ کر طویل مشاورت اور گہرے مطا لعے کے بعد کہتے ہیں اور اُس پر عمل کر کے دکھا تے ہیں وزیر اعظم نے گور نر ہا وس لا ہور کی دیواروں کو گرانے کا حکم دیتے وقت تا ریخی جملہ کہا ’’یہ دو ر غلا می کی علا متیں ہیں ، میں ان کو ختم کر نا چاہتا ہوں ‘‘ جب تاریخی عمارتوں کو منہدم کیا جائے گا تو بات کر کٹ تک آجائیگی ؂
ذکر چھڑ گیا جب قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
کر کٹ بھی دور غلا می کی یا د دلا تا ہے یہ کھیل سلا طین دہلی میں سے سلطان علا و الدین خلجی ، سلطان شہاب الدین غوری یا شیر شاہ سوری نے متعارف نہیں کر ایا مغل باد شا ہوں میں سے جلال الدین اکبر یا ظہیر الدین بابر نے متعارف نہیں کرا یا ریا ست مدینہ سے سے آ کر یہ کھیل ہم تک نہیں پہنچا بلکہ جب انگریز وں نے ملک پر قبضہ کیا اُن کے دور حکو مت میں کر کٹ کا کھیل یہاں آیا حفیظ کا ردار اور فضل محمود اُس دور کی یا د گار تھے ہٹلر نے جر منی میں کر کٹ پر اس لئے پا بندی لگا ئی تھی کہ یہ انگریزوں کا کھیل ہے آج تک چین ، جا پان ، ملا ئیشیا ، تر کی اور فرانس کی کوئی کر کٹ ٹیم نہیں ہے زندہ قو میں اس کھیل کو دور غلا می کی نشا نی قرار دیتے ہیں لا ہور کا ریلوے سٹیشن بھی دور غلا می کی نشا نی ہے مگر یہ ہوا ئی دشمنوں نے اڑا ئی ہے اگر ریلوے سٹیشن کو منہدم کیا گیا توفر زند راولپنڈی شیخ رشید بے روز گار ہو جائینگے اس طرح بعض شر پسندوں نے سو شل میڈیا میں حکومت کی توجہ اُن سفارت کاروں ، کھلاڑیوں ، ادیبوں ، صحا فیوں ، شا عروں اور دیگر نامور شخصیات کی طرف دلا ئی ہے جنہوں نے انگلینڈکی گوریوں سے شادیاں کیں اُن کی اولاد بھی دور غلامی کی نشا نیوں میں شمار ہوگی وزیر اعظم نے یقیناًطویل مشاورت اور گہرے مطا لعے کے بعد یہ بات کہی ہو گی کہ ’’گورنر ہا وس کی دیوار گرادو یہ دور غلا می کی نشا نی ہے ‘‘ دیوار گرانے کا جشن بھی بجا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایچی سن کا لج ،ریلوے سٹیشن ، کر کٹ ، انگریزی زبان اور دیگر نشا نیوں کو کیسے مٹا دیا جائے گوریوں کی اولاد سے کس طرح چھٹکا را پا یا جائے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں