308

دادبیداد ۔۔۔۔۔۔پارلیمانی زلزلے ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

پاکستان کی پار لیمان میں چھوٹے بڑے زلزلے آتے رہتے ہیں پہلے لو گ ایسے زلزلوں پر فکر مند ہو تے تھے اب لو گ بالکل فکر نہیں کر تے عادت سی جو ہو گئی ہے اس ہفتے سندھ میں گورنر راج کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر ڈی ما کل کی یہ تلوار سندھ اسمبلی کے اوپر بدستور لٹک رہی ہے اور تلوار کسی بھی وقت اس کے اوپر گر سکتی ہے اس لئے زلزلہ پیما مشینوں کے ذریعے زلزلوں کی گہرائی اور شدّت کا بغور جا ئزہ لیا جا رہا ہے دوست ،احبات کا ایک حلقہ کہتا ہے کہ تاریخ کی طرف مت جاؤ قاری بوریت کا شکار ہو جاتاہے لیکن تاریخ کے بغیر کوئی بات مکمل نہیں ہو تی کسی دا نا کا مشہور قول ہے ’’ اگر تم اپنی تاریخ پر پستول سے فائر کرو گے تو مستقبل تمہیں توپ کا گو لہ دے ما رے گا ‘‘ ہمارے نظام تعلیم کی اصل خرابی یہ ہے کہ تاریخ ہم سے چھین لی گئی ہے ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ گور نر جنرل غلام محمد نے اسمبلی کو توڑ کر پا کستان میں پہلا آئینی خلا پیدا کیا عدا لت عظمیٰ نے اس کے اقدام کو درست قرار دے کر ہماری عدا لتی تا ریخ کا چہرہ ہمیشہ کے لئے داغدار کر دیا جنرل ضیا ء نے اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلی اُس وقت توڑ ی جب محمد خان جو نیجو نے خود کو وزیر اعظم سمجھ کر اوجڑی کیمپ حا دثے میں 2ہزار شہریوں کے مارے جا نے کی تحقیقات کا اعلان کیا بھٹو شہید اور نواز شریف نے بلو چستان کی دوحکومتوں کو گھر بھیج دیا اس لئے کہ وہ ان کی پارٹی کے لو گوں کی حکو متیں نہیں تھیں ہماری پار لیمان کی مثال بندر کے سرپر رکھے ہوئے دودھ کے پیا لے کی طرح ہے دودھ سے بھرا ہو اپیا لہ بندر کے سر پر رکھ دیا گیا ہے اگر یہ پیا لہ صحیح سلامت اپنی عمر کے 5سال پوری کر تا ہے تو یہ کرامت اور معجزہ ہے ورنہ پیا لے کی طبعی عمر کوئی نہیں پیا لہ کسی بھی وقت الٹ سکتا ہے ہمارے بزر گوں نے ایک قدیم وہم کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے اب بھی زلزلہ آ ئے تو ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ زمین بیل کی سینگ پر رکھی ہوئی ہے بیل جب تھک جا تاہے تو اس کو ایک سینگ سے اٹھا کر دوسری سینگ پر رکھتا ہے زمین ایک سینگ سے دوسری سینگ پر جاتے وقت جس قدر ہلتی ہے اُسی قدر زلزلہ آتا ہے کبھی یہ بیل زیا دہ تھکا وٹ کا شکار ہوتا ہے تو غصے سے زمین کو دوسری سینگ پر پٹخ دیتا ہے اُس وقت بڑے بڑے زلزلے آتے ہیں جو تباہ کن ہو تے ہیں ہم نے ایک بزر گ سے پو چھا کبھی زلزلے کا مر کز شمالی امریکہ میں کبھی انڈو نیشیا میں اور کبھی کو ہ ہندو کش میں کیو ں ہو تاہے ؟ بزرگ نے جعرافیہ پر غور کئے بغیر معصو میت سے جواب دیا ’’ بیٹا بیل جو ہے وہ زمین کو لیکر گھوم رہا ہوتا ہے وہ ایک جگہ توکھڑا نہیں رہ سکتا‘‘ ہم نے بزرگ سے زمین کے نیچے الگ الگ پلیٹوں اور زمین کے اندر آتش فشانی عمل کا ذکر کیا جو اُن کے سر کے اوپر سے گزر گئی پھر ہم نے ہار مانتے ہوئے کہا، تمہاری بات سچ ہے ہماری اسمبلیاں بھی بیل کی سینگ پر رکھی گئی ہیں بیل کبھی گھاس چرنے کے لئے جا تا ہے کبھی پا نی پینے کے لئے جھکتا ہے کبھی دوسرے بیل سے سینگ لڑا تا ہے کبھی اسمبلی کو ایک سینگ سے دوسری سینگ پر پٹخ دیتا ہے اس لئے اسمبلیاں ہمیشہ زلزلوں کی زدمیں رہتی ہیں شکر کا مقام ہے کہ بیل نے سندھ اسمبلی کو دوسری سینگ پر رکھتے وقت گرنے سے بچا لیا ورنہ لا ہو اور اسلام اباد میں بھی زلزلوں کا خطرہ تھا میرے دوست کہتے ہیں پاکستان کی اسمبلیوں کے اوپر خطرات اس لئے منڈلاتے ہیں کہ عوام ووٹ دیتے وقت ہماری بات نہیں ما نتے ہم سے پوچھ کر ہماری مر ضی سے ہماری پسند یدہ پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے پتہ نہیں کیوں بار بار اپنی مر ضی سے ووٹ دیتے ہیں اور ایسے لو گوں کو حکومت میں لا تے ہیں جو ہمیں پسند نہیں برائیوں کی جڑ عوام کا ووٹ ہے ہم پھر تا ریخ کے جھرو کوں میں نظر دوڑ ائینگے تو اس کا حل نکل آئے گا یہ 1953کی بات ہے سابق ریا ست چترال کے ایڈ شنل پو لٹیکل ایجنٹ نے ریا ست کی ایڈ وائزری کونسل کے انتخا بات کی اجا زت دیدی انہوں نے انتخا بات کے لئے جو اصول وضع کئے وہ ایسے رہنما اصول تھے جن کو آج پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کے لئے رہنمااصول بنا یا جا سکتا ہے ریا ست کے اندر ہر انتخا بی حلقے سے دو ممبروں کی گنجا ئش رکھی گئی ایک ممبر عوام کے ووٹو ں سے منتخب ہو گا دوسرا ممبر حکومت نامزد کریگی عوام نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا حکومت نے اتحا دی لیگ کے ارکان کو نامزد کیا کونسل کے اندر دونوں کی تعداد برابر ہو گئی پو لیٹکل ایجنٹ کونسل میں آیا دونوں طرف ووٹ برا بر ہوئے پولٹیکل ایجنٹ نے اپنا ووٹ کا سٹ کر کے ہر مسئلے کو اپنی مر ضی سے حل کیا وطن عزیزپاکستان کی اسمبلیوں کو استحکام بخشنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے نصف اراکین عوام کے ووٹوں سے آنے چاہئیں بقیہ نصف’’ اُن‘‘ کی طرف سے نا مزد ہو نے چا ہیں ووٹ برابر آنے کی صورت میں وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرکے اپنی مر ضی کا فیصلہ سنائے گا کھیل ختم پیسہ ہضم، پاکستان کے پارلیمانی نظام کو زلزلوں سے بچا نے کا یہی واحد راستہ رہ گیا ہے شاعر نے 100باتوں کی ایک بات کہی ؂
اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا
بھوکے ننگے بے چاروں سے کیا لینا
میرا خا لق میرا ما لک ہی افضل ہے
آتی جا تی سر کاروں سے کیا لینا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں