319

صدا بصحرا ۔۔۔۔ریکارڈ کی حفاظت کا تقاضا ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی 

ریکارڈ کی حفاظت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اس کو دشمن کی دست برد سے محفوظ رکھا جائے لیکن خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس کے برعکس کا م کیا خبر آگئی ہے کہ صوبے کے محکمہ صحت نے اپنا سار اکمپیوٹر ڈیٹا ایک جگہ اکھٹا کر نے کا کام یو ایس ایڈ کے ذیلی ٹھیکہ دار یا کنسلٹنٹ کو دید یا ہے ذیلی کنسلٹنٹ صو بائی حکومت سے 20 لاکھ روپے بھی لے گا اور محکمہ صحت کا پورا ریکارڈ ایک جگہ جمع کر کے اچک لے جائے گا خبر کی تفصیلات میں بتا یا گیا ہے کہ یہ کام صو بائی حکومت کے اُس انقلابی پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت محکمہ داخلہ، محکمہ قانون ، محکمہ مال ،محکمہ خزانہ ، محکمہ تعلیم اور دیگر ذیلی اداروں ، خود مختار کا ر پو ریشنوں کا ریکارڈبھی اکھٹا کیا جا رہا ہے اس کا م کے لئے اگلے بجٹ میں 3 کروڑ روپے رکھے جا رہے ہیں اور یہ کام یو ایس ایڈ کے کنسلٹنٹ کر ینگے کیونکہ اس اہم کام کی ضرورت بھی یو ایس ایڈ کو تھی اور اس کے لئے فنی ،تکنیکی معاونت بھی امریکی ادارہ فراہم کر رہا ہے
لو ہ بھی کہتے ہیں بے ننگ و نام ہے
اگر جانتا تو لُٹا تا نہ گھر کو میں
ایک اور خبر آگئی تھی جس کی تر دید کی گئی مگر تر دید پر کسی کو یقین نہیں آرہا خبر یہ تھی کہ وفاقی محکمہ داخلہ نے امیگر یشن قوانین میں ترمیم کر کے اسرائیلی شہر یوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دید ی ہے ترمیم میں جن 10 ملکوں کا ذکر ہے اس میں اسرائیل بھی شامل ہے حکومت کے تر دید ی بیان کے با ؤ جود یہ بات محل نظر ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟ پھر اسرائیل کا نام اگر اس فہرست سے نکالا گیا تو واپس فہرست میں ڈالنا بھی مشکل نہیں برف پگھل چکی ہے حکومت نے اپنا رویہ نرم کیا ہوا ہے کسی بھی وقت اسرائیل کا نام دوبارہ اس فہرست میں آسکتا ہے دونوں خبروں کو یکجا کر کے دیکھا جا ئے تو حکومت کی سمت اور حکمرانوں کے رُخ کا پتہ لگ جاتا ہے حکومت کی ترجیحات کا پتہ لگ جاتا ہے اب جسٹس افتخار چوہد ری کے دور کا سپریم کورٹ بھی نہیں رہا جو ایسے واقعات پر از خود نوٹس لیکر حکمرانوں کو کٹہر ے میں کھڑا کر تا تھا اب جنرل مشرف کے دور کا کوئی مضبوط اور طاقتور ادارہ بھی نہیں جو قومی سلامتی کے معاملات میں حکومت کی تو جہ حساس نوعیت کے مسائل کی طرف دلا نے کا فریضہ انجام دیتایہ دور افراتفری اور نفسا نفسی کادور ہے وطن عز یز پاکستان پر اس طرح کا خوفناک دور ماضی میں کبھی نہیں آیا تھا آج حکمران غسلخانے میں جو بات سو چتا ہے اُس بات کو اگلے دن ملک کا قانون بنا یا جاتا ہے یا ملکی پالیسی کا نام دیا جاتا ہے کر تار پور کی سرحد کھولنے کا خیال بھی باتھ روم میں کسی کوآیا اُس نے اس کو قومی پالیسی قرار دیا اسرائیلی شہر یو ں کے لئے سرحد کھولنے کا خیال بھی باتھ روم میں آیا ہو گا سب سے زیادہ تشو یشناک بات یہ ہے کہ جس ریکارڈ کو ہیکرز (Hackers) سے بچانے کے لئے 20 لاکھ روپے خرچ ہو نے چاہیں وہی 20 لاکھ روپے ہیکرز کو دے کر اپنا خفیہ ریکارڈ یکجا کر کے ہیکرزکے حوالے کیا جاتا ہے ’’ یکے نقصان مایہ دیگر شما تت ہمسایہ ‘‘ 1990 ؁ء میں اُس وقت کی حکومت کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ (Security Risk) قرار دیکر برطرف کیا گیا تھا 1993 ؁ء اور 1996 ؁ء میں بھی ایسا ہی کیا گیا 1999 ؁ء میں ایک اور حکومت کو سیکورٹی رسک قرار دیکر فارغ کیا گیا قومی سلامتی کے لئے حکومت اُ س وقت خطر ہ بنتی ہے جب وہ اہم قومی راز دشمن کو دید ے 2006 ؁ء میں جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اہم قومی رازوں کا افشا کیا تو اُن پر ’’ سیکورٹی رسک ‘‘ کا لیبل نہیں لگا کیونکہ اُن کی ذات سراپا سیکورٹی تھی وہ اگر Risk لیتا تھا تو قومی مفاد میں رسک لیتا تھا اُس کو عدالت عظمیٰ نے یہ اختیار بھی دید یا تھا کہ قومی مفاد کی تشریح و تا ویل اپنی مرضی ، منشا اور سہولت کے مطابق کر تا پھر ے سیکورٹی پر نظر رکھنے والوں نے اوپر اطلاع پہنچا ئی کہ صو بے کا حساس ترین کمپیوٹر ڈیٹا یکجا کر کے 20 لا کھ روپے نذ رانہ کے ساتھ دشمن کو دیا جا رہا ہے تو اوپر والوں نے مزید اوپر والوں سے رجوع کیا مزید اوپر سے حکم آیا کہ ’’ انہیں کچھ نہ کہو اپنے ہی بند ے ہیں ‘‘ یعنی پنجا بی مقولے کی رو سے نہ چھیڑ ملنگا ں نوں، دنیا بھر میں حساس معلو مات اور قومی ڈیٹا کی حفاظت کی جاتی ہے اسکو ہیکرز سے محفوظ بنا نے کی کو شش ہو رہی ہے ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے ہم اپنا حساس ڈیٹا 20 لاکھ روپے میں لپیٹ کر دشمن کے سپرد کر رہے ہیں ایک چرواہے کا قصہ مشہور ہے اُس نے ریوڑ کی حفاظت کے لئے کُتا پالا ہوا تھا کتا دن کو ٹھیک ٹھا ک رہتا رات کو ڈر کے مارے کسی کو نے کھد رے میں دبک کر چھپ جا تا چرواہے نے کتے کی حفاظت کے لئے پہر ہ دار رکھ لیا لوگوں نے پو چھا تم نے کتا کیوں پالا ہوا ہے اُس نے کہا ریوڑ کی حفاظت کے لئے لوگوں نے پھر پو چھا تم نے پہر یدار کیوں رکھا ہوا ہے اُس نے کہا کتے کی حفاظت کے لئے، ہمارے حساس ڈیٹا کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے لیکن محکمے کے اندر 13 پرا جیکٹس اور 9 شعبے ہیں ہر شعبے کا الگ ڈیٹا بینک ہے اس ڈیٹا بینک تک رسائی مشکل ہے اس لئے یو ایس ایڈ کے فنی اور تکنیکی تعاؤن سے ہم پورا ڈیٹا یکجا کر کے مرکز ی جگہ پر رکھنا چاہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ ہم سے زیادہ ہمارے دشمن کی آسانی کے لئے اس کام کی ضرورت تھی اور دشمن ہمارے ہی تعاؤن سے ہمارے خرچ پر محکمہ صحت کا پو را ڈیٹا چوری کر کے لے جا رہا ہے اگلے 10 سالوں میں ہم کو ڈیٹا کی ضرورت پڑے تو ہم یو ایس ایڈ سے رجو ع کر کے اپنا ڈیٹا حاصل کرینگے کیونکہ ہمارا ڈیٹا بینک اڑا دیا جائے گا مجھے کنسلٹنٹ کے بارے میں انگر یز وں کا گھسا پٹا مقولہ یاد آرہا ہے کسی نے ایک بزرگ سے پو چھا کنسلٹنٹ کس کو کہتے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا ’’ جو شخص تمہا ری گھڑی دیکھ کر تمہیں وقت بتا ئے اور معا وضے میں تمہا ری گھڑی لے جائے اس کو کنسلٹنٹ کہتے ہیں ایک اجنبی نے چر واہے سے کہا اگر تم میری خد مات حاصل کر و تو میں تمہا ری بھیڑیں گن کر بتا ؤنگا کہ کتنی بھیڑیں حاملہ ہیں؟ چرواہے نے کہا معاوضے میں کیا لو گے ؟ اجنبی نے کہا ایک بھیڑلے لوں گا چرواہے نے کہا ٹھیک ہے گن لو،وہ ریوڑ کے اند ر گیا گن کر اُس نے حاملہ بھیڑوں کے اعدا د وشمار بتلا دیے چرواہے نے کہا ایک بھیڑ اپنی مرضی سے اُٹھا ؤ اس نے اُٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا چرواہے نے کہا کیا تم کنسلٹنٹ ہو ؟ اجنبی نے کہا ہاں مگر تم نے کیسے پہنچا نا ؟ چرواہے نے کہا جس جانور کو تم نے بھیڑ سمجھ کر گاڑی میں ڈالا وہ بھیڑ نہیں، کُتا ہے۔ خبر دلچسپ ہے یو ایس ایڈ کے کنسلٹنٹ پہلے مرحلے میں محکمہ صحت کے 21 شعبوں کا ڈیٹا اکھٹا کر کے لے جائینگے اس کے بعد مرحلہ وار پورے صوبے اور پورے ملک کا ڈیٹااکھٹا کر کے لے جائینگے اور ہم سے اس کام کا معاوضہ بھی وصول کر ینگے دُکھ اس بات کا ہے کہ ایک طرف حساس معلومات کی اہمیت ختم ہو گئی دوسری طرف دوست اور دشمن کا فرق بھی مٹ گیا ؂وائے نا کامی !متا ع کا روان جا تا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جا تا رہا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں