299

داد بیداد ۔۔۔۔۔زبانوں کا سائباں ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی 

ساتویں عالمی ہند کو کانفرنس پشاور کی آخری نشست میں ایک قرار داد کے ذریعے وفاقی اور صو بائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مادری زبانوں کے تحفظ ، فروغ اور پا کستان کی ہند آ ریا نی زبانوں کی نشرو اشاعت کے لئے گندھا را ہند کو اکیڈ یمی کے پرا جیکٹ کو تو سیع دی جائے اور اکیڈ یمی کیلئے سالانہ گرانٹ مقرر کیا جائے تاکہ اکیڈیمی صو بے کی 27زبانوں کے ساتھ ساتھ دیگر پاکستانی زبانوں کے لئے اپنے کام کو دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھائے اور تمام پاکستانی زبانوں کے لکھا ریوں ، ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر تا رہے کانفرنس میں پا کستان ، تر کی ، امریکہ اور کینڈا سے آئے ہوئے ما ہرین نے مقا لے پڑھے استنبول یو نیورسٹی میں اردو چیرکے پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے کہا کہ جدید دور کی مشینی زندگی ، انٹر نیٹ ، سو شل میڈیا اور الیکٹرا نک میڈیا کی یلغار نے مادری زبانوں کو خطرے سے دو چار کر دیا ہے مائیں لوری سنا نے کی جگہ بچوں کو کارٹون دکھا کر سلاتی ہیں زراعت ، گلہ بانی اور گھرداری سے وابستہ قدیم رسم ورواج ختم ہو گئے ہیں ان کے ساتھ مادری زبان کا ذخیرہ الفاظ محدود ہورہا ہے ترک شاعر کہتا ہے اگر میری زبان نہ رہی تو میں بھی نہیں رہونگا تر ک غیروں کی زبان کو پسند نہیں کر تے جبکہ پاکستانی اپنی زبان سے ذیادہ غیروں کی زبان سے محبت کر تے ہیں انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو پا نچ سوالوں کے ذریعے خود اپنا محا سبہ کر نا چاہئیے یہ لیٹمس ٹیسٹ ہے کیا میں اپنی زبان میں لوری سے وا قف ہوں ؟ کیا میں اپنے زبان میں گنتی کا عادی ہو؟کیا میں اپنی زبان میں دُعا کا عادی ہوں ؟ کیا غصے کے وقت گالی اپنی زبان میں نکلتی ہے ؟ کیا مجھے خواب اپنی زبان میں آتے ہیں ؟ اگر ان میں سے ایک کا جواب بھی نفی میں ہے تو پھر اپنی مادری زبان کا سوگ منائیے ٹولیڈوامریکہ سے آئے ہوئے پشاوری مندوب ڈاکٹر سید امجدحسین نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 2019ء کو مادری زبانوں کا سال قرار دیا ہے کیونکہ عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ بائیسویں صدی سے پہلے ہی دنیا کی 6700زبانوں میں سے 2680زبانیں معدوم ہو جائینگی گویا 40فیصد زبانوں کو زوال آئے گا انسانی دانش کا عظیم ورثہ ختم ہو جائے گا ہم میں سے ہر ایک کے سامنے چیلنچ یہ ہے کہ اپنی مادری زبان کو کیسے تحفظ دیا جائے قدرت کی اس عظیم نشانی کو معدو میت سے کس طرح بچا یا جائے انہوں نے کہا اس دور میں سائیں احمد علی ، نذیر کربلائی میٹھو مشکی ، آغا جوش اور رحمان با با تو دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتے ہزار خوانی ،شاہ ولی قتال ،کوچہ رسالداد ،محلہ خداداد ، ڈھکی ،حمید خان ،ڈھکی منور شاہ اورمحلہ سیٹھیاں کی پرانی رونق واپس نہیں آسکتی تاہم گندھارا ہندکو اکیڈیمی موجودہ عہد کی سب سے بڑی کامیابی ہے امریکہ سے آئے ہوئے مندوب ڈاکٹر نسیم اشرف نے کہا پشاور کی قدیم تہذیب میں کھیلوں کی اہمیت اور کھلاڑیوں کی خدمات پر تحقیق ہونی چاہئیے انہوں نے اس بات کو سرا ہا کہ گندھا را ہندکو اکیڈیمی نے فٹ بال کے فروغ کے لئے پشاور کے کھلاڑیوں کی خد مات پر وفیع اور جامع تحقیقی کتاب شائع کی ہے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے استاد ڈاکٹر کمال خان نے لسانیاتی حوالے سے ہند آر یا ئی زبانوں کی 22خصو صیات کے پیمانے پر فنی اور تکنیکی لحاظ سے پر کھتے ہوئے ہند کو زبان کی ہند آر یا ئی خصو صیات کا جائزہ پیش کیا پروفیسر حسام حر نے بہت دلچسپ بات کہی کہ ہند کو اورہند کوان کے تانے بانے ہند کی ثقا فت اور ہندو کش کی قدامت سے ملتے ہیں غزوہ ہند کی پیشگوئی بھی اس کا حوالہ ہے اور ’’بخال ہندو یش بخشم‘‘ میں اس کا اشارہ ہے کانفرنس میں اس زبان پر زور دیا گیا کہ کسی بھی زبان کو چھوٹی زبان نہیں کہنا چاہئیے ، علا قا ئی زبان کا طعنہ دیکر الگ نہیں کرنا چا ہئیے 1985ء میں پانچویں کل پا کستان اہل قلم کانفرنس کی قرارداد میں قومی پا لیسی کے گائیڈ لائن دی گئی کہ ملک کی 74زبانوں کو پا کستانی زبا نیں سکھا اور پڑھا جائے 1987ء میں علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی میں ملکی زبانوں کا شعبہ قائم ہو ا تو اُس کا نام شعبہ پاکستانی زبانیں رکھا گیا اس سلسلے میں ایک اور پیش رفت اُس وقت ہوئی جب مارچ 2014میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی ورثہ نے ملک کی 22زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی سفارش کی خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ اس ایوان نے 2011ء میں صو بے کی 5زبانوں کو پہلی جما عت سے بارھویں جما عت تک نصاب میں شامل کرنے کا ایکٹ منظور کیا اور صو بے کی تمام 27زبانوں کے لئے ایک خود مختار اتھارٹی کے بل کی منظوری دی گندھارا ہند کو بورڈ کے جنرل سکرٹری محمد ضیا ء الدین نے کہا کہ گند ھارا ہند کو اکیڈ یمی کا قیام 1950میں عمل میں آنا چاہئیے تھا شکر کا مقام ہے کہ 2015ء میں صو بائی حکومت کی گرانٹ سے اکیڈیمی قائم ہوگئی اور ساڑھے تین سالوں میں اکیڈ یمی کو ما ہرین نے ’’ سٹیٹ آف دی آرٹ ‘‘ کی سند سے نوازا ہے اکیڈ یمی نے قلیل عرصے میں 200سے زیادہ کتابیں شائع کئیں ان میں نا یاب اور نا در تحقیق مسودوں کی اشاعت بھی شامل ہے اکیڈیمی کی لائبریری میں تمام زبانوں کی کتابون کا ذخیرہ ہے اکیڈیمی 18مجلے شا ئع کرتی ہے ان میں مختلف زبانوں کے مجلے شامل ہیں اکیڈیمی نے صوبے کی مختلف زبانوں پر ہزارہ ، ملا کنڈ، ڈی آئی خان اور پشاور ڈویژنوں میں کانفرنسیں منعقد کیں تمام زبانوں کے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کو مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کیا مو جودہ کانفرنس کا مر کزی خیال اور عنواں یہ ہے کہ ’’ہند کو اورہند آریا ئی زبانوں کی ترقی اور فروغ کے ذریعے قومی یک جہتی کا حصول ‘‘اس طرح ہمارا نعرہ ہے کہ ہند کو یا پشتو کی جگہ ہند کو اور پشتو کہا جائے پشتو یا کھوار کی جگہ پشتو اور کہوار کہا جائے گندھارا ہند کو اکیڈیمی نے اٹک ٹیکسیلا ، پوٹھو ہار ، فیصل اباد ،سندھ اور بلوچستان اذاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ادیبوں اور دانشوروں کا تعاون بھی حا صل کیا ہے ہند کواکیڈیمی تحقیق اور تخلیق ادب کی اشا عت کے ساتھ ساتھ دیگر 7شعبوں پر کام کررہی ہے جن میں خطا طی اور مو سیقی سے لیکر ہائی ٹیکنا لو جی ایپ تک رسائی بھی شامل ہیں اکیڈیمی کے ڈائریکٹر عادل نے ہند کو ایپ کا تعا رف پیش کیا جس کی مدد سے 2200اقوال زرین مو بائل فون پر ڈا ون لوڈ کئے جا سکتے ہیں بچوں کے لئے ہند کو میں Kids learner بھی اس ایپ کا حصہ ہے اس مسحور کن کار کر دگی کو دیکھ کر کسی نے کہا تھا یہاں ’’جن ‘‘ کام کر تے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں