278

صدا بصحر ۔۔۔قدیم و جدید کا امتزاج ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

طریقہ تعلیم وہ مو ضوع ہے جو ہر جگہ زیر بحث آتا ہے حکومت کہتی ہے نصا ب تعلیم کو یکساں ہو نا چاہیئے لبرل طبقہ کہتا ہے کہ مدارس کے نصا ب میں جدید علوم کی آمیزش ہو نی چا ہئیے روایت پسند طبقہ کہتا ہے کہ انگریزی تعلیم کے اداروں میں قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم کو شامل کیاجائے حجاز مقدس میں جگہ جگہ پینٹ شرٹ میں ملبوس نو جواں ملتے ہیں جو اردن ، متحدہ عرب امارات ، مصر اور کویت میں اسلامی مدارس کے طلباء، حفاظ اور قراءکے طور پر اپنا تعارف کراتے ہیں بھارت میں ایسے گریجو یٹ ملتے ہیں جنہوں نے دورہ حدیٹ کے ساتھ جدید تعلیم میں گریجویشن کر رکھی ہے کراچی ، اسلام اباد اور لا ہور میں ایسے ادارے وجود میں آچکے ہیں جو انگریزی اور عربی علوم ساتھ ساتھ پڑھا تے ہیں شیخ الحدیث مو لا نا حسین احمد کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں قدیم و جدید کا امتزاج کا فی نہیں یہ امتزاج مونٹی سوری کی سطح سے شروع ہو نا چا ہئیے تاکہ اول روز سے نئی نسل دین اور دنیا کو الگ سمجھنے کی جگہ ایک تصور کرے ۔مجھے یا د ہے ڈاکٹر امین 1985ءمیں اکسفورڈ یو نیور سٹی میں پا کستان چیئر کے پرو فیسر تھے ان کی بچی اکسفورڈ کے اندر لڑ کیوں کے سکول میں پڑھتی تھی میں نے وجہ پو چھی تو انہوں نے بتا یا کہ میری ابتدائی تعلیم حیدر اباد کے قریب تعمیر سیرت سکول میں ہو ئی ہے اس تر بیت کا یہ اثر ہے کہ میں اپنی بچی کو مخلوط تعلیم کے سکول میں نہیں بھیج سکتا 1950ءکے عشرے میں تعمیر سیرت سکول کس نے کھولا تھا کہ اس میں تر بیت پا نے وا لا اکسفورڈ یو نیور سٹی کا پر وفیسر ہو کر حجا ب اور پردے کا ایسا قائل ہے جیسے کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ہو یہ ابتدائی تعلیم کا اثر ہے جو عمر بھر ساتھ رہتا ہے
یہ فیضان ِ نظر تھا یا مکتب کی کر امت تھی
سکھا ئے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
مو لا نا حسین احمد نے اسلا مک گرامر سکول کی صورت میں ابتدائی سطح کی تعلیم میں قدیم و جدید کا حسین امتزاج متعارف کرا یا ہے اور یہ اپنی نو عیت کا اہم تجربہ ہے اس سلسلے میں تین طرح کے راستے (Approches) عام ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ طا لب علم یا طا لبہ انگریزی پڑھے تا ہم قرآن و حدیث کے علم سے بے بہرہ نہ ہو، دوسرا راستہ یہ ہے کہ طا لب علم قر آن و حدیث کی تعلیم حا صل کرے مگر فزکس ، کیمسٹری اور انگریزی علوم میں بھی دسترس رکھتا ہو،تیسرا راستہ یہ ہے کہ طا لب علم یا طا لبہ قرآن و حدیث کی تعلیم کو بھی حد کمال تک پہنچائے اور سائنس و ٹیکنا لو جی کی تعلیم کو بھی اوج کمال تک لے جائے دونوں شعبوں میں اُس کا ثا نی کوئی نہ ہو اسلا مک گرامر سکول کا تصوّ ر یہ ہے کہ طا لب علم یا طا لبہ اول روز سے اس نہج پر تعلیم حاصل کرے کہ اُس کی نظر مین دین اور دنیا کے علوم الگ الگ نہ ہوں اُس کی نظر میں دونوں کا منبع ایک ہو اور دونوں علوم ایک ہی دریا کی دو مو جیں ہو ں مونٹی سوری سطح کا طا لب علم جب ایوان ِ قرآن میں داخل ہو تا ہے تو اس کو پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک کا علم فزکس اور کیمسٹری کی بنیاد ہے ، انگریزی تعلیم اسلامی تعلیمات کے منا فی نہیں اور جدید علوم میں مہارت حا صل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث اور فقہ کا علم نہ ہو تو تعلیم ادھوری رہ جا تی ہے اسلامک گرامر سکول میں بچے یا بچی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ علم کے دو دھا روں کو الگ الگ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ دونوں کو یکجا کر کے بچے کی شخصیت میں شامل کر نا چا ہئیے مطمح نظر یہ ہے کہ ایک اچھا ڈا کٹر ، ایک اچھا افیسر ، ایک قابل انجینّر اور ایک لائق جج کو سب سے پہلے اپنے مذہب اور اپنی مذہبی کتاب پر کا مل عبور حا صل ہو نا چا ہئیے اور دینی تعلیم کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ایسا شیرو شکر ہو نا چا ہئیے کہ دونوں میں جدائی کا شائبہ تک باقی نہ رہے ایک بڑی مجلس میں بزرگ سے سوال کیا گیا کہ دین و دنیا میں جدائی کب واقع ہو ئی ؟ بزگ نے سوال کا رُخ مجلس کی طرف موڑ دیا اہل مجلس میں سے کسی نے کہا جب یزید تحت نشین ہوا تو منبر اور کُر سی کو الگ الگ جگہوں پر رکھا گیا یزید کُر سی کا اہل تھا منبراورمحراب کے لائق نہیں تھا دوسرے صاحب نے کہا جب نظام الملک طوسی نے جا معہ نظامیہ بغداد کی بنیاد رکھی تو دین کو دنیا سے الگ کرنے کا پہلا تا ثر قائم ہوا بزرگ نے نفی میں سر ہلا یا اور فیصلہ سنا یا کہ دونوں سنگ میل غلط ہیں دین اور دنیا میں جدائی اُس وقت عمل میں آئی جب لارڈ میکا لے کا نظام تعلیم بر صغیر میں نا فذ ہو ااور انگریزی سکو لوں کو کلرک بھر تی کرنے کی نر سری قرار دیا گیا ملا زمت ، روز گار اور دنیوی ترقی کو انگریزی تعلیم کے ساتھ نتھی کر کے دینی تعلیم کو مسجدومحراب و منبر تک محدود کیا گیا اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو خواب ِ غفلت سے بیدار کر کے ایک بار پھر دین اور دنیا کی تعلیم کے دو دھا روں کو یکجا کیا جائے اسلامک گرامر سکول مونٹی سوری لیول سے قرآن و حدیث کی تعلیم کو انگریزی ، کیمسٹری ، ریا ضی اور فزکس کے ساتھ یکجا کر تا ہے الف انار کی جگہ الف اللہ سے سبق شروع کر تا ہے اور یہ تطہیر افکار کے ساتھ تعمیر کردار کی بنیاد ہے اسلامک گرامر سکول کا طا لب علم بیک وقت عالم دین ، انجینّر ، ڈاکٹر ، جج اور اعلیٰ انتظا می افیسر بننے کی صلا حیتوں کا حا مل ہو تا ہے اور اسی کا نا م قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے اور یہ اسلام کے تصوّر دین سے قریب تر ہے جو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا ہر گز قائل نہیں شیخ الحدیث مو لا نا حسین احمد کا دعویٰ ہے کہ اسلامک گرامر سکول کا تجربہ پورے ملک میں اپنی نو عیت کا پہلا تجربہ ہے اور یہ پا کستان میں یکسان نظام تعلیم کی پہلی اینٹ ہے جو درست رکھ دی گئی ہے کیونکہ پہلی اینٹ غلط رکھ دی جائے تو اس کے اوپر مضبوط عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی
خشت اول چوں نہدمعمار کج
تاثریا می رود دیوار کج

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں