261

داد بےد اد ۔۔۔۔غَل اور مل ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا ےت اللہ فےضی

پشتو مےں ضر ب المشل ہے اگر چور نہےں بھا گتا تو گھر کے مالک کو بھا گنا ہو گا پشتو مےں چور کو غَل اور گھر کے مالک کو مَل کہتے ہےں اس ضر ب المثل کی صدائے بازگشت آج کل افغانستان کے در ودےوار سے آرہی ہے چو ر بھا گ رہا ہے اور گھر کا مالک حےران ہے کہ چور کے بھا گنے کے بعد گھر کس کو دےا جائے ؟ عجےب سی صورت حال ہے اور عجےب اس لئے ہے کہ گھر کا مالک اےک نہےں گھر کے کئی مالک ہےں ہر مالک کا اصرار ہے کہ اصل مالک مےں ہوں اور ہر مالک کی ضد ہے کہ گھر پر مےرا قبضہ ہو گا چو ر کو اس طرح کی صورت حال کا پتہ ہے چور نے پہلے بھی اس کا مشا ہد ہ کےا ہے 2002 ءمےں مشر قی تےمور سے انڈ ونےشےا کی فوجوں کو نکال دےا گےا تو تحر ےک آزادی کے دو کردار سنا نہ گسما ﺅ اور کارلوس بےلو اقتدار اور اقتدار کی رسہ کشی سے الگ ہو گئے متفقہ حکومت وجود مےں آگئی کوئی خا نہ جنگی نہےں ہو ئی1991 ءمےں افغانستان سے سوےت ےونےن کی فوجوں کا انخلا ءہوا تو تحر ےک آزادی کے 9 بڑے لےڈروں مےں سے ہر اےک نے کہا حکومت کر نا مےر ا حق ہے اس پر طوےل خانہ جنگی شروع ہو ئی جواب تک جاری ہے 1991 ءسے 2019 ءکے درمےان جو 28 سال بےت گئے ان سالوں مےں افغانستان کو سوےت ےونےن کے قبضے والی جنگ سے 100 گنا زےادہ نقصان ہوا وجہ ےہ تھی کہ اُس وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ تھا اوراب بھا ئی اپنے بھا ئی کا گلا کاٹ رہا تھا ےہ تلخ حقےقت ہے اس کا ادراک کئے بغےر آگے بڑھنا اور آگے آنے والی ممکنہ حالات پر بحث کر نا مشکل ہی نہےں نا ممکن بھی ہے اُمےد کا دےا صرف اےک ہے وہ ےہ کہ امرےکی صدر ڈونلڈ ٹر مپ نے انتخا بی مہم کے دوران امرےکی عوام سے وعد ہ کےا تھا کہ امرےکی فوجوں کو بےرونی ممالک کی جنگوں مےںاستعمال نہےں کےا جائے گا صدر منتخب ہو نے کے بعد انہوں نے اپنے عزم کو دہر اتے ہو ئے اےک با ر پھر کہا تھا کہ بیرونی مما لک سے امریکی فوجیں واپس بلائی جائینگی انہوں نے کہا تھاکہ ” ہم نے دُنیا جہاں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا “ یہ اُ مید کی ایک کرن ہے کہ چور خود بھا گنے کی فکر میں ہے چور کے بھا گنے کے بعد کیا ہو گا ؟ اس کی ہلکی سی جھلک گزشتہ دو ہفتوں کے اخبارات میں نظر آتی ہے چار بڑے بڑے گروہ سامنے آگئے ہیں ایک گروہ کہتا ہے کہ چور کو میں نے نکا لا ، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ چور کو میں نے نکا لا ، تیسرا گروہ کہتا ہے چور کو میں نے نکا لا اور چو تھا گروہ کہتا ہے میری طرف سے دباﺅ نہ ہوتا تو چور کبھی نہ نکلتا اب چورکی باری ہے ابھی تک چور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے کس نے نکا لا یا ” مجھے کیو ں نکا لا “ ؟ اگر چور کسی ایک کے اوپر ہا تھ رکھ دے کہ مجھے اس نے نکا لا تو وہ چور کا جانشین ہو گا اور ظاہر ہے چور کا یار ہو گا تو چور ہی ہو گا قرا ئن سے پتہ لگتا ہے کہ چور ایسا نہیں کہے گا اب تک کے تجربات اور زمینی حقائق کی روشنی میں چور کا وصیت نا مہ تیا ر رہے چور کے وصیت نامے کی چیدہ چیدہ باتیں یہ ہیں چور نے وصیت کی ہے کہ میرے جانے کے بعد میر ا جانشین جو بھی ہو گا وہ دا عش سے لڑ ے گا گویا چور امن کا راستہ صاف کرنے کی جگہ جنگ کی راہ ہموار کر کے جارہا ہے دوسری وصیت یہ ہے کہ میرے اموال متروکہ ، میرے چیک پوسٹ، میراایمو نیشن ، میرے اڈے میرے ہمدم دیرینہ اور وفادار دوست بھارت کو ملیں گے تیسری وصیت یہ ہے کہ میرے جانشین کا پہلا فرض یہ ہو گا کہ وہ میرے دوست بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور میرے دشمن پاکستان کو حر کت کرنے کی اجا زت نہ دے یہ تین نکا تی ایجنڈا ہے اور افغانستان سے امریکی فو جوں کے انخلا کے بعد اس پر عمل درآمد کا آغاز ہو گا اگر یہاں تک پڑھ کرپاکستانی قاری کو کسی قدر نا امیدی اور ما یو سی ہو ئی ہوتو میں معذرت خواہ ہوں ، میرے سامنے آئینہ ہے آئینے میں دو تصویریں ہیں پہلی تصویر میں دکھا یا گیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو کھو لا گیا ہے افغان مہاجرین کے قا فلے جو ق در جوق پا کستان آرہے ہیں اور پاکستانی قوم سپر پاور بننے کے شوق میں جشن منا رہی ہے دوسری تصویر وہ ہے جس میں افغا نستان سے سویت افواج کے انخلا کا منظر ہے سویت یونین کے ٹینک واپسی سفر پر در یائے آمور کو پار کررہے ہیں پا کستان میں جشن بر پا ہے کہ مجا ہدین کامیاب ہوئے پاکستان جیت گیا اور دشمن کو شکست ہوئی آئینے میں دونوں تصویریں مو جو د ہیں مگر صورت حال ہمارے توقعات کے بر عکس ہے افغان مہاجرین کے آنے کے بعد پاکستان کو کسی بھی میدان میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی سویت یو نین کی فو جوں کے انخلا کے بعد نہ مجا ہدین کی کامیابی کہیںدیکھنے میں آئی نہ پاکستان کے دشمن کی کوئی شکست ہمیں نظر آئی اب ہم خواہ مخوا شادیانے بجا نے اور بلا جواز جشن منا نے کے عادی ہو چکے ہیں سکرپٹ یا مسودہ وہی ہے جو 1975ءمیں لکھا جا چکا تھا بعض کرداروں کی جگہ نئے کر دار لائے گئے ہیں پاکستان پہلے بھی مہمان اداکار یا چائلڈ سٹار تھا اب بھی پاکستان کی حیثیت وہی ہے قطر سے لیکر ما سکو اور ریاض سے لیکر اسلام آباد تک جو تما شا لگا یا جا رہا ہے وہ پرانا تما شا ہے یہ تما شا کس طرح آگے بڑھے گا اس کا انحصار تماشا لگا نے والے مداری کی ضرورت اور اس کے ذوق پر ہے افتخار عارف نے سو باتوں کی ایک بات دو شعروں میں کہی ہے
سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تما شا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تما شا ختم ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں