283

مغربی کلچر۔۔۔۔۔تحریر:حافظ امیر حمزہ سانگلہ ہل 

پیارا وطن عزیز ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے بنانے کا مقصد صرف ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف دین اسلام کے مطابق اپنے شب گزارنے کا تھالیکن المیہ یہ ہے کہ ملک پاکستان کے بنانے کی خاطر اپنے بڑوں کی قربانیوں کے مقصد کو بھلا دیاگیا اور ایسا بھولے کہ اب جیسے صرف کتابوں کی حد تک اسلامی پاکستان کا نام رہ گیا ہے۔ توخیرجہاں بہت سے اسلام مخالف کاموں کو ہمارے پاکستان اور پورے مسلم معاشروں میں رواج دیا جارہا ہے۔ ویسے تو پاکستان کو موجودہ حکومت ’’ ریاست مدینہ‘‘ سے جوڑ رہی ہے لیکن مدینہ جیسی ریاست اس وقت ہو گی جب مدینے والی سرکار دونوں جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ سمجھتے ہوئے اسے پورے معاشرے میں نافذ نہ کر دیا جائے، بے حیائی اور اسلام مخالف کاموں پر پابندی نہ لگا دی جائے اور اسی طرح خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کی جائے۔
جب سے مغربی تہذیب وکلچرنے مشرق کی جانب رُخ کیا ہے تب سے بے ہودگی وبے حیائی، فحاشی وغیرہ کاسیلاب امڈآیا ہے، وہ مغربی معاشرہ جہاں خاندانی نظام تباہ ہوچکاہے ، مقدس رشتوں کی قدروقیمت، پرواہ اور اہمیت نہیں رہی، مغرب کی مصنوعی روشنی کی چکا چوند سے خیرہ چشم ہمارے عوام وخواص اخلاق وکردار سے تہی داماں اقوام مغرب کی تھوک چاٹنابھی اپنے لیے قابل فخر سمجھنے لگ گئے ہیں، حالانکہ عالم کفر کی یہ ایک بہت بڑی سازش ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلم و غیر مسلم کی تمیزاور اسلامی شعائر کو ختم کر دیا جائے اوراس کے مقابلے میں اہل مغرب کی تہذیب وکلچر کو مسلم معاشرے میں عام کردیاجائے۔مغربی رسم و کلچر میں سے ایک رسم ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی ہے ۔جو کہ ہر سال 14فروری کا دن آتے ہی’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے اور اسے عالمی یوم محبت کا نام دے کر الیکٹرونک میڈیااوراخبارات پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔جس کے سبب ہماری بھولی بھالی نسل نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے ہوئے بے ہودگی، بے حیائی کے وہ کھیل کھیلتے ہیں کہ جس سے شیطان بھی شرماجائے۔پہلے پہل یہ بدترین وباء ایک خاص طبقے تک محدود تھی لیکن اب آہستہ آہستہ خاص وعام کی تمیز ختم ہو گئی ، ہر طبقے کا فرد اس کی زد میںآرہا ہے اور اب بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں اس بے حیائی کے کام کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جانے لگی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی ادارے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات مغربی تہذیب کی دلدل میں ایسے گھر چکے ہیں کہ ان سے سوچنے سمجھنے کاشعور بھی ختم ہوتا نظر آرہاہے اوریورپ کی تقلید میں ہر وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جس میں بے حیائی وبے شرمی کاعنصرہوتا ہے اور پھر ان کی نقالی کرتے ہوئے نہ کوئی پریشانی ہوتی ہے اور نہ ہی ندامت ۔اب افسوس اس بات کاہوتا ہے کہ ہماری نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے اور غیروں کی تہذیب کو اپناتے ہوئے اسے اپنا شعائر سمجھنے لگی ہے،حالانکہ یہ اصول اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی قوم کااپنی تہذیب و تمدن کو ترک کر دینااور اس کے برعکس اغیار کی تہذیب وتمدن کو اپنالیناترقی نہیں کہلاتابلکہ تنزلی کی علامت ہوتی ہے۔اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتاکہ یہ دن مناناغلط ہے اور معاشرے میں بے حیائی اوربے ہودگی پھیلاناہے۔کون نہیں جانتا کہ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاداوررومانوی قسم کی محبت کااظہارکیا جاتاہے جس میں لڑکے لڑکیوں کا آزادنہ ملاپ،ایک دوسرے کوتحائف اور کارڈزکاتبادلہ ہوتاہے،یعنی غیر اخلاقی حرکات ہوتی ہیں تو پھر بعد میں نتیجہ زنااوربداخلاقی کی صورت میں نکلتاہے جس سے اس بات کاعلی الاعلان اظہار ہوتاہے کہ ہمیں مرداور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے،گویاکہ اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں ہے۔
اب دیکھیں ہندوؤں نے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کا تہوار ہندوستان میں منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قراردیاہے، توذراسوچیں!ایک غیر مسلم دوسرے غیرمسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہاہے اورمسلم معاشروں میں بعض ایسے افراد ہیں کہ والہانہ اندازمیں غیر مذہب کے تہوار کاخیر مقدم کررہے ہیں۔ مذہب کوتو چلیں چھوڑیں اگر ذاتی حوالے سے دیکھیں توبھی ایک سنجیدہ شہری کے لیے یہ سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں۔ کیا کوئی غیرت منداس بات کو برداشت کرے گا کہ کسی غیرمرد کاپیغام الفت ،اس کی بیوی،بیٹی،بہن کے لیے آئے اور کسی غیر سے تحائف کاتبادلہ ہو اورمیل ملاپ ہو؟۔حقیقت بات ہے کہ یہ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ اور اس جیسے بہت سارے غیر اسلامی تہواروں کے ذریعے ہماری اسلامی روایات کو تباہ اورہماری معاشرتی اقدار کو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔
اہل مغرب اور غیر مذاہب کے تہوار منانے کے یہ کون سے طریقے ہیں اور ان کی سر پرستی کیا معنی رکھتی ہے!سینٹ ویلنٹائن ڈے کی بے معنی اور غیراخلاقی محبت کاپرچارکرنے والے اپنی تہذیب پر بدنما داغ ہیں،پاکیزہ جذبوں سے ناآشنااور گمراہیوں کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔مسلمانوں میں بسنت اوراس جیسے دیگر ہندوانہ تہوار کے بعد عیسائی قوم کے پادری ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے مکروفریب پر مبنی داستان کو ہمارے درمیان رائج کرنا چاہتے ہیں۔ قوم ایسے بے ہود ہ قسم کے تہوارمنا کر آخر کن لوگوں کے عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ باعث افسوس کہ رسول ہاشمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر غیروں کے رسوم و رواج کوفروغ دیا جا رہا ہے کہ اب مسلمان بھی اس بے حیا،بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں