202

مجھ پہ دکھ کا بوجھ نہ لاد ۔۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان 

خواتین پر گھریلو تشدد، ذہنی اذیت، صنفی امتیازاور جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات پر خاص تحریر
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
صنف نازک پر گھریلو تشدد اور ظلم و ستم ہمارے معاشرے کا انتہائی دردناک المیہ ہے۔ اگرچہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے، اور قوانین بنائے گئے ، لیکن اس سب کے باوجود پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ ان گھمبیر حالات میں حکومت محض وومن پروٹیکشن بیورو بنا کر اپنی زمہ داری سے عہد ہ برآ نہیں ہوسکتی۔ ہر صبح ظلم کی ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے، حوا کی بیٹی کہیں درندوں کے ہاتھوں تشدد، کہیں ظلم و ستم کا شکار، تو کہیں اس پر ناجائز تعلقات کے الزام عائد کرکے ایسے انداز میں قتل کردیا جاتا ہے جس سے روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ ملک کے قصبوں اور دیہی علاقوں میں تو غیرت کے نام پر قتل معمول بن چکا ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً 1400 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً پانچ ہزار خواتین، نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ جبکہ عزت و غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے مقابلے مردوں کے قتل کا تناسب صرف ایک فیصد ہے۔ خواتین کے قتل کے واقعات میں30فیصد ان کے اپنے شوہر ملوث ہوتے ہیں ،وہ شوہر جنہیں وہ مجازی خدا مانتی ہیں۔ خواتین کے بیس فیصد قتل عام کے پیچھے ان کے باپ اور بھائیوں کا ہا تھ ہوتا ہے۔ گھر چار دیواری پر مشتمل سر زمین کا ایک ایسا پر سکون گوشہ ہے جو دن بھر کی تھکان اور بے ہنگم مصروفیات کے بعد انسان کو سکون اور طمانیت کا احساس بخشتا ہے مگر بعض افراد ایسے ہیں جو سارا دن گھر سے باہر رہنے کے بعد جب گھر لوٹتے ہیں تو دن بھر کا جمع غصہ اور مزاج کی چڑ چڑاہٹ صنف نازک کو مار پیٹ کر اتار تے ہیں۔چونکہ مردوں کو برتری حاصل ہے کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو عورت کو اپنا زیر دست سمجھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کاروکاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کردینا،شوہر اور سسرال والوں کی جانب سے تشدد، تیزاب پھینک دینا یا گھریلو اختلافات میں عورت کو جلا دینا تشدد کی عام پائی جانے والی اقسام ہیں۔بعض اوقات تو روز مرہ گھریلو تشدد تشدد عورتوں کو خودکشی جیسے سنگین راستے کو اپنانے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں خواتین پر تشدد کے واقعات تشویشناک حد تک رونما ہوتے ہیں۔ جبکہ وزارت انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2011ء سے 2017ء تک خواتین پر تشدد سے متعلق 51 ہزار 241 کیس رجسٹرڈ کئے گئے، اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ گھریلو تشدد کے 15 ہزار 461 واقعات سامنے آئے۔ وزارت کو صوبائی محکمہ پولیس سے موصول ہونیوالے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین پر تشدد کے 2011ء میں 8 ہزار 418، 2012ء میں 8 ہزار 845، 2013ء میں 7 ہزار 573، 2014ء میں 7 ہزار 741، 2015ء میں 6 ہزار 527، 2016ء میں 8 ہزار 13 اور سال 2017ء کے دوران 4 ہزار 66 کیسز سامنے آئے۔ ان شکایات میں خواتین پر گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جلانا، جنسی زیادتی، کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔
اس ساری صورتحال کو دیکھ کر تصور کریں ہم کس طرح کے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسی غیرت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، اور جسے حرمت اللہ تعالیٰ نے عطاء کی ہو اسے کیونکر قتل کردیا جاتا ہے؟ یہ کیسی درندگی ہے اور کیسی بے حسی کا عالم ہے، وہ جو اپنے والدین کے لیے رحمت ہے اسے اس کااپنا باپ قتل کر دیتا ہے تو کہیں وہ بھائی جو بہنوں کا محافظ کہلاتا ہے ہمیشہ کی نیند سلا دیتا ہے۔ کہیں کوئی کسی کو رشتہ نہ ملنے پر پستول کی گولی کی نذر کردیتا ہے کہ وہ میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ اور کہیں جائیداد میں وراثت، کہیں ذاتی عناد کی وجہ سے ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر غیرت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔ اس سے زیادہ تلخ المیہ کیا ہوگا کہ اس تشدد اور ذلت کی ابتدا گھر کے افراد ہی کے منفی رویوں سے ہوتی ہے۔ عورت جو ماں ہے ، بہن ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے ، اس کے وجود کو پرانے اور بے بنیاد نظریات کی بناہ پر ظلم کانشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ عورتوں کی مار پیٹ گالی گلوچ ، بے جا پابندیاں اور قیود ،جذباتی اور ذہنی دباؤ بنیادی ضروریات کی غیر فراہمی، لڑائی جھگڑے، بیٹیوں کی زبردستی شادی، گھریلو تشدد کے زمرے میں آتی ہیں، صد افسوس کہ ایسا گھریلو تشدد ہمارے معاشرے کا شیوہ بن چکا ہے۔محدود اور جارحیت پسند ذہنیت رکھنے والے انتہا پسند لوگ ایسا تشدد سرعام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ عو رت حوا کی بیٹی ہے جو کہ انسا نی نسل بڑ ھا نے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن روز بروز خواتین پر گھریلو تشدد کے ایسے واقعات کا رونما ہونا قانون کی کمزور گرفت کی بھی علامت ہے۔جبکہ کچھ ظالموں کو بچانے کے لیے تو پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے، اور کچھ عدالتی نظام میں کمزوریوں کی بناہ پر رہا ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے گھناؤنے واقعات کی روک تھام کے لئے مجرموں کو سرعام عبرتناک سزائیں دی جائیں ، جب ایک مجرم کو سزا نہیں ملتی تو اسے شہ مل جاتی ہے اور وہ پھر ظلم و بربریت کرتاہے۔ عدالتی سسٹم کو مضبوط اور اس طرح کے سخت قوانین بنائے جائیں کہ کوئی بھی خواتین پر ظلم و جبر روا نہ رکھ سکے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کو تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے نمائندے اور ماہرین یہ باور کرواتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔تعلیم کو عام کرکے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور سماجی سطح پرخواتین کے نہ صرف جنسی اور جسمانی تشدد بلکہ ذہنی اذیت کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات ناگزیر ہیں کہ آخر کب تک ہوا کی بیٹی ظلم وجبر کا نشانہ بنتی رہے گی۔۔۔؟
مجھ پہ دکھ کا بوجھ نہ لاد
دیکھ میں صنف نازک ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں