267

صدابصحرا ۔۔۔۔۔۔محب وطن۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

’’منکہ مسمی محب وطن ساکن اسلام آباد پاکستان آج کے بعد کسی عالم دین ، وکیل ، اُستاد ، اخبار نویس ، سرکاری افیسراور سیاستدانوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھونگا‘‘یہ اُس حلف نامے کا ابتدائیہ ہے جو میرے دوست نے مجھے بھیجا ہے میرے دوست کے پاس ایک دستاویز ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ دشمن نے پاکستان کے خلاف نئی جنگ کے لئے چار طبقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے علمائے دین کو استعمال کیا جائے گا سیاستدانوں کو استعمال کیا جائے گا وکلاء ،اخبار نویسیوں ، اساتذہ اورسول افیسر وں کو استعمال کیا جائے گا علماء کو مذہب کے نام پر میدان میں لا یا جائے گا ، سیاستدانوں کوجمہوریت کا لبادہ پہنایا جائے گا وکلاء ،اساتذہ اور صحافیوں کو انسانی حقوق، سول سوسائیٹی اور شہری آزادی کے پُر فریب نعرے دیئے جائینگے سول انتظامیہ کو قانون کے نام پر ملک اور قوم کے خلاف استعمال کیا جائے گا اس لئے محب وطن عوام کو ان کے قریب نہیں جانا چاہیے بلکہ ملکی ادارے اور انسٹیٹوشن کے ساتھ وفاداری نبھا نی چاہیے حلفیہ بیان کی رُو سے محب وطن آدمی اکیلا ہوتا ہے 21کروڑ کی آبادی میں جو شخص کسی عالم دین، کسی سیا ستدان ، کسی وکیل ، اخبار نویس ، استاد اور سول انتظا میہ کے افیسر کا دوست نہ ہو ، ایسے شخص کو محب وطن سمجھا جائے گا ، جس شخص کی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی ہو وہ ہر گز محب وطن نہیں ہو سکتا مجھے یہ بیاں حلفی پڑ ھ کر 1993 ؁ء میں ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع اپر دیر کے مقام میدان سے جاری ہو نے والا گشتی مرا سلہ یاد آیا گشتی مراسلے میں ملا کنڈ ڈویژن کے عوام کو خبر دار کیا گیا تھا کہ چار قسم کے لوگ مسلمان نہیں ہیں نفاذ شریعت کے مخالف ہیں اُن چار قسم کے لوگوں سے دور رہ کر شریعت کے نفاذ کے لئے اخلاص کے ساتھ کام کر و دنیا اور آخرت میں فلاح پا ؤ گے جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کی پہلی قسم وہ ہے جو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں دوسری قسم وہ ہے جو جمہو ریت اور انتخا بات کو جا ئز سمجھتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو ووٹ میں اُمید وار بن کر سامنے آتے ہیں اور ووٹ مانگتے ہیں چو تھی قسم وہ ہے کہ کسی کو ووٹ دیتے ہیں یہ چاروں دائر ہ اسلام سے خارج ہیں یہ گشتی مراسلہ ہماری مسجد میں پڑ ھ کر سنا یا گیا تو ایک بزرگ نے کھڑے ہو کر کہا اگر یہ سب دائر ہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر ملا کنڈ ڈویژن کی ساری آبادی غیر مسلموں کی ہو گئی شریعت کس پر نافذ کر ینگے ؟مسجد میں خا مو شی ہو ئی کچھ دیر بعد اُس بزرگ نے کہا خدا کے لئے لوگوں کو اسلا م کی طرف بلا ؤ اسلام سے خارج مت کرو یہی حال ’’ محب وطن ‘‘ کا ہو گیا ہے اگر علما ئے دین ،سیا ستدانوں ، قانون دانوں ،صحافیوں ، پرو فیسروں اور پڑھے لکھے لوگوں کو سول انتظا میہ کے افیسروں کے ساتھ ملا کر محب وطن کے درجے سے گرادیا گیا تو باقی کو ن بچے گا ؟ پھر وطن کے کیا معنی ہو ئے اور محب وطن کے کیا معنی ہو ئے ؟ انگر یز ی میں دو متضاد الفا ظ اس صورت حال کی تصویر کشی کر تے ہیں ایک لفظ ہے ’’ ایکسکلوزیو ‘‘دوسرا لفظ ہے ’’ انکلوزیو ‘‘ ایکسکلوزیو کا مطلب ہے سب کو با ہر نکال کر خود اکیلے رہوو انکلوزیو کا مطلب ہے سب کے ساتھ رہو ، سب کو ساتھ لیلو ،اور سب کو لیکر آگے بڑھو یہ اسلا م کا بھی اصول ہے اسلام سب کو ساتھ لیکر چلنے کا درس دیتا ہے سب سے الگ تھلک ہو نے کا اصول ابو جہل کا تھا اس اصول کو اپنا کر ہٹلر نے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو برباد کر دیا قومی زندگی میں سب کو ساتھ لیکر چلنے کا اصول کارفر ما ہوتا ہے امریکہ اور چین کی ترقی کا راز یہی ہے ترکی اور انڈ و نیشیا کی طاقت کا راز بھی یہی ہے دنیا کی دیگر قوموں میں سے جس قوم نے ترقی کی ہے وہ سب اس اصول پر کار بند ہیں پاکستان کی ابادی کا بڑ ا حصہ ،علما ء ، سیاستدانوں اور سول سو سائیٹی کے نا مور لوگوں پر مشتمل ہے اس میں قانو ن دان ، صحافی ، اساتذہ اور دوسرے پڑ ھے لکھے لوگ شامل ہیں باقی قوم ان کی پیر وی کر تی ہے سب مل کر پاکستانی قوم کہلا تے ہیں اگر ان سب لوگوں کو محب وطن کے زمرے سے الگ کیا گیا توپھر محب طن کون رہ جا ئیگا ؟ اسطرح کا بیا نیہ منظر عام پر لا کر ہم خود اپنے پا ؤں پر کلہاری کا وار کرینگے پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی اس کے مقابلے میں مثبت اور کار آمد بیا نیہ یہ ہے کہ پاکستان کے علما ء ،سیاست دان ، وکلا ء ، صحافی ، پڑھے لکھے لوگ ، اساتذہ اورسول سو سائیٹی کے تمام کارکن اپنے ادارے یا انسٹیٹو شن کے ساتھ ہیں سول انتظا میہ کے حکام بھی اپنے ادارے یا انسٹیٹو شن کے ساتھ ہیں اور سب کے سب محب وطن ہیں میرا حلفیہ بیان یہ ہوگا کہ منکہ مسمی محب وطن پاکستانی اپنے علما ء سیا ستدانوں ، وکلا ء صحافیوں ، سول سو سائیٹی کے فعال کارکنو ں اور سول انتظا میہ کے حکا م کے ساتھ ہوں ، ہم سب اپنے ادارے انسٹیٹو شن اور فوج کے ساتھ ہیں اوپر پاکستان کا پر چم ہے اور’’ اس پر چم کے سایے تلے ہم ایک ہیں ‘‘‘ یہ وہ مثبت بیا نیہ ہے جو دشمن کی نیند یں حرام کر دیگا نہ کہ وہ بیا نیہ جس میں 21 کروڑ کی آبادی کو الگ کر کے ادارہ یا انسٹیٹو شن کو الگ کیا گیا ہے سب کو الگ کر نے اور دائر ہ حب الوطنی سے نکا لنے کا عمل 1993 ؁ ء میں ملا کنڈ کے لوگوں کو دائر ہ اسلام سے خارج کر کے نفاذ شریعت کا مطا لبہ کر نے کے متر ادف ہو گا مرزا غالب نے دو مصر عوں میں گو یا در یا کو ایک کو زے میں بند کر دیا ہے
وفا کیسی ! کہاں کا عشق ! جب سرپھوڑ نا ٹھہر ا
تو پھر اے سنگِ دل تیرا ہی سنگِ آستا ں کیو ں ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں