226

صدا بصحرا ۔۔۔۔۔انا پرستی کی قر بانی ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

ملک کے مختلف صو بوں اور مختلف اضلاع میں در جہ چہارم ملا زمین کی ہزاروں آسا میاں خا لی ہیں اُن آسا میوں پر کسی بے روز گار کو روز گار دینے کا مر حلہ آتا ہے تو انتخا بی حلقے کے اراکین پار لیمنٹ آسا میاں آپس میں برابر تقسیم کرنے پر جھگڑ تے ہیں اور اس بندر بانٹ میں ہر شخص کہتا ہے کہ میرا سفا رشی بھر تی نہیں ہوا تو میں ذمہ دار افیسروں کو تبدیل کرا دونگا اور اُن کو کر پشن میں پکڑ کر نیب کے حوا لے کر دونگا مجھ سے کوئی نہیں بچ سکیگا کسی حلقے میں اگر 12عوامی نمائند ے ہیں اور ہر نمائندہ اپنے 10بندوں کو بھر تی کرا نا چاہتا ہے تو ’’ دو ملا ووں میں مر غی حرام ‘‘ کے مصداق آسا میاں خا لی رہ جا تی ہیں ملک کے اندر گزشتہ 72سا لوں میں ایسی خوش گوار نفسیا تی فضا بن گئی ہے کہ با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کے کٹر مخا لفین بھی قائد اعظم کو مانتے ہیں اور اُن کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں قائد اعظم اپنی وفات کے روز بلو چستان میں زیا رت ریذیڈنسی سے کر اچی روانہ ہونے لگے تو وہاں ان کی خدمت اور دوائیوں پر ما مو ر نر س نے اُن سے آخری ملا قات میں در خواست پیش کی کہ میرے بوڑھے ماں باپ راولپنڈی میں رہتے ہیں مجھے بلو چستان سے پنجاب تبدیل کیا جائے با بائے قوم نے بستر مرگ پر اپنی نر س سے کہا ’’ بیٹی تم نے میری اچھی خد مت کی ہے میں تمہارا شکر گزار ہوں مگر تمہیں ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تبدیل کرنا تمہارے ڈائریکٹر کا اختیار ہے یہ میرے اختیار میں نہیں اگر میں نے ایسا کیا تو اپنے اختیا رات سے تجا وز کر ونگا مجھے قا نون توڑ نے پر مجبور مت کرو اپنے ڈائریکٹر کو در خواست دو‘‘ ہمارے زمانے کی مصیبت یہ ہے کہ با بائے قوم کا نام احترام سے لینے والے قا نون توڑ نے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور قا نون توڑ کر اُن کو خو شی ہو تی ہے پار لیمنٹ کا ممبر گاؤں کے سکول ، ہسپتال یا واٹر سپلائی سکیم میں درجہ چہار م کی ملا زمت کے قانون کو نہیں مانتا قانون کے تحت اس ملا زمت کے چار حقدار ہیں پنشن لینے والے ملا زمین کے بچوں کا حق ہے سر کاری تعمیرات کے لئے مفت زمین دینے والے لو گوں کا حق ہے دوران ملازمت وفات پا نے والے ملا زمین کے بچوں کا حق ہے اور قا نون یہ بھی کہتاہے کہ اُس گا وں کے معذور وں کا بھی حق ہے اس کے بعد مجاز افیسر کسی امیدوار کی صحت ، اہلیت اور استعداد کو دیکھ کر نو کری دے دے گا 1985تک یہ دستور تھا کہ حقدار کو ان کا حق دینے کے بعد در جہ چہارم کی جو آسا می رہ جاتی تھی اس پر ٹیکنیکل مہارت رکھنے والے نو جوان مثلاً بجلی کا کام ، تر کھا نی کا کام ، راج ، گلکار ، مالی وغیر کا کام کرنے والے نو جوان کو تر جیح دی جا تی تھی ایسا اُمید وار درجہ چہارم کی کسی آسامی پر قُلی ، چو کیدار ، چپڑاسی ،مالی ، بہشتی ، خاکروب وغیرہ بھر تی ہو کر اپنے فرض منصبی کے ساتھ ساتھ دفتری عمارت میں مر مت کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا تا تھا دفتر کے لئے مفید ہو تا تھا 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر اسمبلیاں بن گئیں ہر ممبر کو جماعتی وا بستگی کے بغیر اپنا ہمنوا بنانے کے لئے طرح طرح کی رشوتیں دی گئیں درجہ چہارم ملازمین کی بھرتی میں سفارش کا اختیا ر اور بعض ملازمتوں میں اراکین اسمبلی کے لئے مخصوص کوٹہ بھی ان رشوتوں میں شامل تھا اراکین اسمبلی نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر درجہ چہارم کی ملازمتیں تقسیم کرنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ ان کی ’’انا پرستی‘‘کا ذریعہ بن گیا اس وجہ سے دفتروں کا نظام درہم برہم ہو ا قوانین معطل ہو گئے حقداروں کا حق ضائع ہوا نیز اراکین اسمبلی کی عزت بھی خاک میں مل گئی مجھے 1975ء میں قومی اسمبلی کے ایک ممبر کے ساتھ دو دن سفر کا موقع ملا تھا 2019ء میں پھر ایک رکن اسمبلی کے ساتھ سفر کا مو قع نصیب ہو ا 1975ء میں رکن اسمبلی کے پاس آئیندہ 100برسوں کے لئے اپنے حلقے کی ترقی کا منصوبہ ہوتا تھا اسمبلی کی کاروائی اورقانون سازی میں حصہ لینے اور پارٹی کی پالیسی کے مطابق اسمبلی میں کردار ادا کرنے کے لئے تجاویز ہوتی تھیں انہی امور پر وہ گفتگو کرتا تھاانہی امور پر وہ دوسروں سے ملاقات کر تا تھا مزے کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے حلقے کے کسی افیسر کے دفتر میں کبھی نہیں جاتا تھا صرف میٹنگ میں افیسروں سے اس کی ملاقات ہوتی تھی 2019ء میں معاملہ اس کے برعکس ہے اسمبلی کا ممبر سارادن دفتروں میں گھومتا ہے افیسروں سے ملتا ہے ایجنڈ ا یہ ہے کہ مالی اور چپڑ اسی کی پوسٹ مجھے دیدو فلاں کلرک ،فلاں اکاؤنٹنٹ، فلاں ڈسپنسر ، فلاں ٹیچر کو فوراََ تبدیل کرو وہ گفتگو میں اورٹیلی فون پر بھی یہ باتیں کرتا ہے، اپنی کار کردگی اور کامیابی کی دلیل کے طور پر خاکروب کی بھرتی اور جونیئر کلرک کی تبدیلی کو بطورِ سند پیش کرتا ہے اس کام کے لئے وہ افیسروں کی منت سماجت بھی کرتا ہے نرمی سے مطلب ہاتھ نہ آئے تو الطاف حسین آف لند ن کے انداز میں مُکّا لہرا کردھمکی بھی دیتا ہے یوں 1975ء میں اسمبلی کے ممبر کی جو عزت تھی 2019ء میں وہ عزت نہیں رہی اب ہم اراکین پارلیمنٹ سے یہ نہیں کہ سکتے کہ انا پرستی کی قربانی دو، درجہ چہارم ملازمین کی بھرتی اور جونیئر کلرک کی تبدیلی کا کا م مجاز افیسروں پر چھوڑ دو، قانون کو اپنا کام کرنے دو ،حقدار کو اپنا حق لینے دو یہ بات نقار خانے میں طوطے کی آواز ہوگی البتہ ہم عدلیہ کے اعلیٰ حکام ، خصوصاََ چیف جسٹس صاحبان سے درخواست کرسکتے ہیں کہ اس مسئلے پر سوموٹو نوٹس لیکر 1985ء سے پہلے کا سسٹم بحال کیا جائے تاکہ قانون کو بالا دستی حاصل ہو ، حقدار کو اُس کا حق ملے اور دفتری نظام میں خلل نہ آئے نیز اراکین پارلیمنٹ کو 1975ء والی عزت کا مقام دوبارہ مل جائے بقول ساغر صدیقی ؂
جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں