495

ریحام خان اوراٹھتے سوالات۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے شادی کرنے پر ریحام خان کی شہرت اور عوامی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ ہواتھامگردونوں کے راستے الگ ہونے کے بعد بھی ریحام کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہواہے نظراندازاس حقیقت کوبھی نہیں کیا جاسکتا۔البتہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائزہے کے مصداق نیشنل بھابی کہلانے والی ریحام خان جب تک عمران خان کی منکوحہ تھی تب تک عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے ان کے جذبات اورخیالات کچھ اور تھے وہ عمران خان کوبہترین سیاسی لیڈراورتحریک انصاف کوتبدیلی کی واحد جماعت قراردے رہی تھی اوریہی کہتی سنائی دیتی تھی کہ عمران جیساشوہرہوتواور کیاچاہئے ۔قومی میڈیابھی انہیں خصوصی اہمیت دے رہاتھاجب کہ پارٹی کے اندرون خانہ بھی ہرسو انہی کے گن گائے جارہے تھے مگر جوں ہی حالات نے یکسر پلٹاکھایااوردونوں کاساتھ چھوٹ گیاتوجہاں پارٹی کے اندر سے ان کے کردارپر انگلی اٹھائی گئی وہاں ریحام کے جذبات اورطرزگفتگومیں اب واضح بدلاؤ دکھائی دے رہاہے۔طلاق کے بعدریحام خان برطانیہ چلی گئی تھیں اور تب سے اب تک وہیں پر مقیم تھیں تاہم گزشتہ دنوں وہ وطن واپس لوٹی ہیں۔ وطن واپسی پرلاہورائرپورٹ پرمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے ان کاکہنایہ تھاکہ ایجنٹ کہنے اور الزامات لگانے والے ثبوت سامنے لائیں،اپنی سرزمین پر کھڑی ہوں جس کے پاس کچھ ہوتواداروں کو دے دیں،کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ خاتون ہے ڈرادھمکاکرخاموش کردیاجائے گامگر دھمکیاں دینے والوں کو یادرکھناچاہئے کہ میں عورت ہونے کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی ہوں مرنابھی آتاہے اور اپنے حقوق کے لئے لڑنابھی آتاہے ۔ان کامزید کہناتھاکہ برطانیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ ہی لاہورمیں ان سے ملنے کاکوئی امکان ہے،عمران سے الگ ہونے کے بعد میرے اوپر جو الزامات لگائے گئے ان میں کوئی صداقت نہیں،ٹی وی پر بیٹھ کربغیر ثبوت کے الزام لگانے والوں کوشرم آنی چاہئے،غلط باتیں کرنے والوں نے اپنی اوقات دکھائی ہے،مجھ پر تنقید کرنے والے چار لوگ ہیں اور میں ان چارافراد کاذکر نہیں کرناچاہتی تاکہ ملک کی بدنامی نہ ہو،فیصل واڈاکی فیملی نے ہمیشہ مجھے سپورٹ کیاہے ان سے یاکسی اور سے کوئی رقم نہیں لی،فلیٹ یارقم لینے کاالزام سراسر غلط ہے،میڈیاایسے الزام لگانے والے لوگوں کوٹی وی پر بٹھانے سے گرہیزکریں کیونکہ اس سے پاکستان کی ساکھ متاثرہوتی ہے،ملک ایسی صحافت کامتحمل نہیں ہوسکتاتہمت لگانے والی صحافت کااب خاتمہ ہوناچاہئے، میڈیامیں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی چند عناصر کے سواباقی لوگ بہت اچھے ہیں،کسی کی دھمکیوں میں نہیں آؤں گی اب اگر کسی نے گالم گلوچ کی توخاموش نہیں رہوں گی،اپنے بارے میں نازیبا باتیں سن کر پاکستان آنے کافیصلہ کیا،سیاست میں شمولیت کے حوالے سے ریحام خان کاکہناتھاکہ سیاست سے پہلے گندگی کی صفائی ضروری ہے،وطن واپس آنے پر بہت گھبراہٹ ہورہی تھی مگرپاکستان آکربہت خوشی ہوئی۔ اگرچہ ریحام خان کایہ کہنامناسب ہے کہ وہ ایک عورت ہونے کے ساتھ ساتھ پٹھان بھی ہے مرنابھی جانتی ہے اوراپنے حقوق کے لئے لڑنابھی جبکہ ان کے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید،اپنے حقوق کے لئے لڑنے کا عزم اوراپنی صفائی میں اظہارخیال سے بھی کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ ان کابنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے ۔وہ یہ بھی پوچھنے اور کہنے کاحق رکھتی ہیں کہ جن لوگوں نے ان کی ذات پر کیچڑ اچھالاہے انہیں ثبوت بھی پیش کرناچاہئے اوراگر کسی کے پاس کچھ ہے تووہ اداروں کودے دیں۔دیکھاجائے توبغیرثبوت کے کسی کی ذات پر انگلی اٹھانااور اس کی کردارکشی کرناقانونی اور اخلاقی اعتبارسے بھی مناسب نہیں اگرریحام خان پر لگائے گئے الزامات واقعی جھوٹے ہیں تویہ قطعی طورپر مبنی برزیادتی بات اورقابل سزاجرم ہے مگریہاں کچھ سوالات نے بھی جنم لیاہے یہ کہ اگرآج ریحام خان حقوق کے لئے لڑنے کی بات کررہی ہیں تو وہ برطانیہ کیوں چلی گئی تھیں کیابہتر نہ ہوتاکہ حالات سے راہ فرار اختیارکرنے کی بجائے وہ یہیں پر سینہ تان کرحالات کاسامناکرتیں، یہ کہ جن لوگوں نے ان کی کردارکشی کی ہے جن میں وہ چارلوگوں کاذکربھی کرتی سنائی دے رہی ہیں کانام ظاہرکیوں نہیں کررہی اورکیاوہ الزامات لگانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی غرض سے عدالت سے رجوع کرے گی یاوہ بھی مخالفین کی قبلہ درستگی کے لئے محض میڈیاکاسہارہ لے گی، ریحام خان پی ٹی آئی کے رہنماء فیصل واڈا کی فیملی کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہتی ہے کہ انہوں نے انہیں ہمیشہ سپورٹ کیاہے لیکن کیاوہ یہ بتاناپسند کریں گی کہ وہ سپورٹ کس نوعیت کی تھی کیونکہ ان پر جوالزام لگائے گئے تھے ان میں ایک فیصل واڈا سے رقم لینے کا بھی تھا۔ان کاکہنایہ بھی ہے کہ اپنے بارے میں نازیباباتیں سن کر وطن آنے کافیصلہ کیااوراب اگر کسی نے گالم گلوچ کی تو خاموش نہیں رہوں گی مگرسوال یہ اٹھتاہے کہ وہ اب تک خاموش کیوں تھیں اور اگروہ اب اپنے حق کے لئے لڑنے اوربولنے پر اتر آئی ہیں توکیایہ ان ذاتی فیصلہ ہے یاکسی کے اکسانے کانتیجہ کیونکہ ان کی وطن واپسی سے قبل جب وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف دورہ برطانیہ پر گئے تووہاں پر دونوں کی ملاقات اور آپس میں کچھ طے کرنے کی افواہیں گردش کررہی تھیں ۔سیاست میں شمولیت سے متعلق ریحام کاکہناہے کہ پہلے گندگی کی صفائی ضروری ہے لیکن کس گندگی کی صفائی ہونی چاہئے یہ نہیں بتایا۔بہرحال یہی وہ سر اٹھاتے سوالات ہیں جن کے جواب دیئے بغیر تویہی کہا اورسمجھاجائے گاکہ دال میں کچھ کالاہے اور کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں