282

محمد جاوید حیات پرُانا چھترار ، نیا چترال

میرے ابو کہا کرتے تھے ۔۔کہ ۱۹۵۷ء کے جولائی کا مہینہ تھا ۔میں پشاور سے چترال آیا ۔شہر میں آنٹی کا گھر تھا ۔وہاں رات گذارا ۔صبح تین بجے ہم پیدل تورکھو کی طر ف روانہ ہوئے۔۔چاند رات تھی ۔ہم چار بندے روانہ ہوئے ۔آنٹی بھی ساتھ تھی ۔برقعہ پہنی ہوئی تھی ۔برقعے کی جالی منہ پرتھی یعنی آنچل گرائی ہوئی تھی ۔۔ہم خاموش بازار میں سے جا رہے تھے ۔پرانے پی آئی اے چوک کے ساتھ ہوٹل تھا ۔اس کی چھت پر چار پائی ڈال کر ہوٹل کا مالک چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ہمیں بازار میں سے جاتے دیکھ کر کہا ۔۔توبہ توبہ یہ زمانہ بھی دیکھنے کو ملا کہ عورت بازار میں سے گزر رہی ہے ۔۔چترال میں پرد ا اور تہذیب کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں چترال میں معاشرہ کیسا تھا ۔۔وقت وقت کی بات ہے ۔ہمارے دور میں چترالی طالب علم کے ساتھ ہوسٹل کے کمرے میں ساتھی ہونا ،اس کا دوست ہونا ،اس کا کلاس فیلوہونا خوش قسمتی تصور کیاجاتا تھا ۔کیونکہ ان سے تہذیب سیکھتے ۔محنت کرتے ۔۔اپنا وقت ضائع نہ کرتے ۔۔لیکن اب ایسا نہیں آئے روز عجیب باتیں سننے کوملتی ہیں ۔ہمارے بچوں نے شاید وہ معیار گرا دیا ہے ۔اس مقام پہ نہیں ہیں ۔ہماری خاندانی روایات تھیں ۔۔ہمارے رسوم و رواج تھے ۔ہمارا احترام و مقام تھا ۔چترال کی بیٹی ،چترال کی ماں ، چترال کی بہن،چترال کا بھائی ، چترال کا باپ،چترال کا بیٹا ،چترال کا دوست ۔۔پھر چترالی شرافت ،چترال کے ادب آداب ،چترال کی محافل ،چترال کے کھیل کے میدان ،چترال کے رشتے ناتے ،چترالی لباس پوشاک ۔۔سب کچھ نرالا تھا ۔انوکھا تھا ۔بے مثال تھا ۔ایک انمول سوغات، ایک تحفہ ۔ایک شاہکار۔یہ جنت نظیر وادی لوگوں کوکھینچ لاتی ۔دیوانہ بناتی ۔ہر طرف محبت اور احترام کی خوشبو پھیلتی ۔خوشیاں تھیں ۔حسد ،بعض ،کینہ ،دشمنی ،کسی کی پگڑی اچھالنا ،کسی کی سبکی کرنا،کسی کی برائی کرنا ،سازش کرنا یہ یہاں کی فطرت میں نہ تھی ۔۔حکمرانی تھی ۔بڑائی اچھائی تھی ۔عیاشیاں نہیں تھیں ۔افلاس تھا مگر وفا تھی ۔ایثار تھا ۔زندگی مشکل تھی ۔مگر زندگی کسی کے لئے بوجھ نہیں تھی ۔لیکن نئے چترال میں یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔۔جوانوں کی جوانی میں وہ مزا نہیں ۔طالب علم کی محنت کہیں نہیں ۔بڑوں میں کردار کوئی نہیں ۔۔سیاست دانوں کی سیاست سے رب بچائے ۔رشتوں ناتوں میں وہ روایتی احترام کا معیار کم ہو رہا ہے ۔۔غلطی کہاں ہے ۔۔وہ تربیت میں ہے کہ خاندانی روایات کی پاسداری نہیں کیجاتی ۔ وہ تعلیم و تربیت میں ہے کہ استاد کو اس تربیت کا احساس نہیں ہوتا کہ کردار انمول چیز ہے ۔وہ بڑوں میں نہیں کہ وہ اپنے کردار سے مثال پیش کریں ۔ وقت بدلتا ہے وقت کے تقاضے بدلتے ہیں لیکن کردار نہیں بدلنا چاہیے ۔آج چترا ل تعلیم یافتہ ہے۔۔ سہولیات یافتہ ہے ۔زندگی آسان ہوگئی ہے ۔دھن دولت ہے ۔لیکن کیا تعلیم یافتہ لوگ اپنی تہذیب کھو دیتے ہیں ۔۔۔کیا مہذب لو گ اپنی تہذیب کے پراخچے اڑا دیتے ہیں ۔۔کیا قوم کے بڑے چھچھورے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ نیاچترال مذید مہذب ہونے کا تقاضا کرتا ہے ۔یہ مذید امن ،چین سکون چاہتا ہے ۔یہ مہذب انسانوں کا بے مثال مسکن ہونے کی آرزو کرتا ہے ۔ہم نئے دور کے تقاضوں کا ادراک کریں ۔ہم ان سہولیات سے فائدہ اٹھائیں ۔یہ قلم کتاب اور تعلیم کا دور ہے ۔یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔یہ سماجی ترقی کا دور ہے ۔قومیں بین القوامی منڈی میں اپنے کردار کی دولت شو کرتی ہیں ۔کون کتنا سچا ہے ۔۔کون کتنا مہذب ہے ۔کہاں کی عدالت انصاف کرتی ہے ۔کس قوم میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔کون اپنا سیاسی سسٹم مضبوط کر رہی ہے ۔کس کی مفادات اجتماعی اور قومی و ملکی مفاد میں ہیں ۔کون سیاسی لحاظ سے بالغ ہے ۔اس دور میں نئے چترال کو بھی اس معیار پہ پورا اترنا ہوگا ۔۔چترال جہان پہ زمین کے ایک ٹکڑے کا نام ہے وہاں ایک تہذیب کا بھی نام ہے ۔۔آج نئے چترال میں ہم لوگ چترال کی پہچان بننے کی بجائے اپنی پہچان کھو رہے ہیں ۔اب ہمارے بڑوں میں الفاظ کی جو جنگ ہوتی ہے وہ چھوٹا پن ہے ۔وہ قوم کی نمائندگی کا کونسا حق ادا کر رے ہیں ۔وہ نئے چترال کو کس نہج پہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔نئے چترال کو ترقی سے زیادہ اپنی تہذب کی بالیدگی کی ضرورت ہے جو اس کی پہچان ہے ۔چترال کے بڑوں کو جو بھی پلیٹ فارم مل رہا ہے ان کو چاہیے کہ اس کو زاتی مفاد ت کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اجتماعی مفاد ات کو سامنے رکھیں ۔ہمیں پتہ ہے کہ اقتدار میں نشہ ہے ۔لیکن قوم کے سچے خادم کے لئے خدمت میں بھی نشہ ہے ۔وہ خدمت کرکے مخدوم ہو جائے ۔اگر وہ زاتی انا کا شکار ہو جائے گا تو محرو م ہوجائے گا اور اس کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔۔ہماری گزارش ہے کہ ہمارے چترال کو چترال رہنے دیں ۔اپنے اقتدار اور سیاسی جھنجھٹ میں ہمیں مایوسی کا شکار نہ کریں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں