212

لُٹیرے۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹیاِ

بنِ آدم حضرت انسان کا مطالعہ میرا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے جہاں بھی اِس پیکر خاکی کا کوئی نیا پہلو زاویہ نظر آتا ہے میں پیکر تجسس بن کر اُس نئے زاویے کو پڑھنے اور جاننے کی کو شش کر تا ہوں ‘آپ بھی اگر اِس مشت غبار کا مطالعہ کر نے کی کو شش کریں تو آپ بھی اِس کے ہر نئے چونکا دینے والے پہلو کو دیکھ کر ششدرہ جائیں گے ‘ عام طور پر ہم انسانوں کے مزاج ‘طرز عمل ‘ذہنی رویوں کو نظر انداز کر تے ہیں ‘ انسان کی حرکات و سکنات قول و فعل کا مشاہدہ نہیں کر تے لیکن اگر آپ انسانوں کا مطالعہ کر نا شروع کر دیں تو یقین مانئے چند انسانوں کے مطالعے کے بعد ہی آپ کی عقل انگلی دانتوں تلے دبا لے گی ‘ میرے والدین کی زندگی میں کو ئی خاص گھڑی ایسی ضرور ہو گئی جب اِن کے لبوں سے نکلے ہو ئے الفاظ خدا کے حضور بازیابی کا درجہ پا کر قبولیت کی سند اختیار کر گئے ہو نگے جو مُجھ فقیر کو راہ حق کا طالب علم بناگئے ‘ عشق الٰہی کے بعد جب خدا کی تخلیق سے محبت ہوئی تو ہر طرف خدا کے نئے جلوے نظر آنا شروع ہو گئے اِن نظاروں کے بعد نظر آکر خدا کی شاہکار تخلیق حضرت انسان پر آکرٹھہر گئی پھر قدرت نے احقر سے ٹوٹی پھوٹی خدمت خلق بھی لینی شروع کر دی اِس سفر میں میری ملاقات ہزاروں لاکھوں انسانوں سے ہو ئی جس کی وجہ سے انسان کے مطالعے کا موقع بھی ملا اِس مشاہدے کے بعد جو لرزا دینے والی حقیقت تھی وہ یہ تھی کہ انسان مکار چالاک تہہ در تہہ خولوں میں مقید ایک جانور ہی نظر آیا جسے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اگر دولت اقتدار عورت کو پانے کا موقع ملا تو اُس نے حیوانی جبلت کا مظاہرہ کر تے ہو ئے شکاری کی طرح مد مقابل کو پکڑ لیا ‘حقیقی نیکی پارسائی خوف خدا تو کل ہزاروں کے بعد ہی نظر آیا ورنہ تہہ در تہہ خول در خول قول و فعل کا تضاد ‘ نیکی بھی معاشرے کا خوف یا معاشرے میں اچھے تشخص کے لیے ‘سخاوت نیکی عبادات بھی لوگوں کو دکھانے کے لیے ‘انسانوں سے حقیقی پیار خدا کی حقیقی باطنی تابعداری باتو ں کی حد تک ہی نظر آئی ‘ انسان کے مختلف پہلوؤں سے آشنائی کے بعد انسانوں کا مشاہدہ میرا پسندیدہ ترین مشغلہ بنتا چلا گیا ‘ بڑے بڑے نیک مفتی دانشور عالم دین خدمت خلق کے چیمپئین کوقریب سے دیکھا تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا پھر تحیر ہی تحیر کہ انسان تو کہاں ہے تجھے کہاں سے تلاش کروں ‘ حضرت انسان کے مطالعے کے بعد جو قابل ذکر جبلت سامنے آئی وہ دوسروں کی چیزوں پر نظر اور موقع ملتے ہی چوری یا لوٹ لینا انسان کی یہ فطرت وطن عزیز کے ہر شعبے میں ادنی انسان سے بڑے انسان تک ‘ چپڑاسی سے وزیر اعظم تک ہر انسان میں نظر آتی ‘ جہاں پر کسی کا بس چلا اُس نے لوٹ مار کر لی اِس لوٹ مار کی فطرت کی وجہ سے پاکستان کا معاشرہ اِس بری جبلت کے رنگ میں بری طرح رنگا جا چکا ہے ‘ ہمارا معاشرہ اورملک لوٹ مار کی درندگی کا بری طرح شکار ہو چکا ہے آپ زندگی کے کسی شعبے کا مطالعہ کریں تو ہرکوئی مہذب پڑھا لکھا شخص انتہائی چالاکی مہارت سے لوٹ مار کر تا نظر آئے گا ‘ ایسے ایسے لوگ جو اپنی بے پناہ شیطانی ذہانت کے بل بوتے پر اِس طرح کی لوٹ مار کر تے ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے لوٹ مار کا یہ رجحان انسانی خون میں شامل ہو کر اب خون کی جگہ رگوں میں دوڑ تاہے ایسے ایسے لٹیرے نظر آتے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ کن ماؤں کی کو کھ سے جنم لیتے ہیں ایسا ہی ایک خطرناک چالاک لٹیرا میرے پاس آیا جس نے میرے دماغ کی چولیں تک ہلا کر رکھ دیں اِن لٹیروں کے مطالعے کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ لوگ لوٹ مار ضرور کرتے ہیں لیکن مذہب کی حدود سے دور رہتے ہیں لیکن میرے سامنے بیٹھا شخص میں اِس کی جرات ہمت مہارت چالاکی پر حیران کہ اِس نے لوٹ مار کے لیے مذہب کو چنا تھا پھر اِس میں ترقی کر تا کرتا مکہ مدینہ تک جا پہنچا ‘ دنیا کا بر ے سے برا انسان شرابی کبابی زانی بد دیا نت انسان بھی مسجد خانہ کعبہ مدینہ رسول ﷺ پر انسان بن کر جاتا ہے ۔ لیکن اِس جانور نما انسان نے مسجد دربار خانہ کعبہ روضہ رسول ﷺ پر لوٹ مار کے ریکارڈ تو ڑے ۔ میرے پاس یہ ایک میرے جاننے والے کے ساتھ آیا کہ مجھے سعودی عرب کا ویزہ لگوادیں میری ان دنوں میں کسی اہم بندے سے جان پہچان تھی جو ویزے میں معاونت فراہم کر دیتا تھا یہ کئی بار سعودی عرب جاچکا تھا لیکن اب چھ ماہ سے مسلسل کوشش کر رہا تھا اِس کا ویزہ نہیں لگ رہا تھا اب ہر طرف سے مایوس ہو کر میرے پاس آیا تھا کہ کسی طرح میرا ویزہ لگوادیں دوران گفتگو اقرار کر چکا تھا کہ وہ پچھلے دس سالوں سے نام بدل بدل کر کئی بار سعودی عرب جاچکا ہے دوران گفتگو جب فرینک ہوا تو میں نے پو چھا تمہارا ویزہ کیوں نہیں لگ رہا تو وہ بولا جناب آپ بابا جی ہیں آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا اب اُس نے داستان حیرت فراڈ سنانی شروع کی کہ میں وہاں جاکرلوگوں کو لوٹتا ہوں اُس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا اور توجہ سے اُس کی داستان سننے لگا بابا جی میں بچپن سے ہی شادی بیاہ میں ناچ گانے کاکام کر تا تھا اُن شادی بیاہ کے فنکشنوں میں لوگ ہم پر پیسے وارتے ہم اکٹھے کر تے اِسی دوران دو چار بار موقع ملاتو جو لوگ ہم پر پیسے پھینک رہے تھے انہوں نے شراب پی ہو ئی تھی انہیں اپنا بھی ہوش نہیں ہو تا تھا ان کی جیبوں سے پیسے چوری کر لیتے ناچ گانے سے کم جیبوں سے پیسے زیادہ ملتے تھے مجھے اِس کام میں مہارت تھی اب دوسرے ناچتے میں دوچار امیروں کو لوٹ لیتا پھرمیں نے جنازوں کا رخ کیا جو لوگ جنازے کی لاش کو کندھا دیتے وہ میرا ٹارگٹ ہو تے ‘ وہ جذبات میں رو پیٹ رہے ہوتے میں اُن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتا ‘ میں نے دیکھا جو لوگ جذبات میں ہو تے ہیں اُن کی توجہ اپنی طرف نہیں ہوتی انہیں لوٹنا آسان ہے اب میں نے مسجدوں کا رخ کیا دعا کے درمیان نمازیوں کو لوٹتا پھر یہاں سے درباروں کا رخ کیا جب لوگ صاحب مزار کی چوکھٹ تھام کر حالت رقت میں دعا کرتے وہ میرا شکار بن جاتے اب میں مزارات عرسوں پر میلاد کا نفرسوں میں شریک ہو کر لوگوں کو لوٹتا اچانک ایک دن خیال آیا کہ خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ پر تو لوگ خود سے بلکل ہی بے خبر ہو تے ہیں اُن کو جاکر لوٹتے ہیں ‘ ویزہ لیا اور سعودی عرب چلا گیا وہاں پر حجر اسود اور خانہ کعبہ کے غلاف سے لپٹے لوگ میرا شکار ہو نا شروع ہو گئے ‘ غار حرا غار ثور اور روضہ رسول ﷺ کے سامنے ایمانی حالت میں روتے لوگ میرا شکار بنتے‘ وہاں پر میری ملاقات جدید لٹیروں سے ہوئی اِن کا طریقہ اور مزے دار تھا وہ زائرین سے یہ ڈرامہ کر تے کہ میرا پاسپورٹ پیسے چوری ہو گئے ہیں ‘ میری مدد کریں جذبہ ایمانی سے سرشار لوگ خوب خوب مدد کر تے اِس ڈرامے میں حقیقیت کا رنگ بھرنے کے لیے میں نے بیوی بچوں کو بھی بلا لیا اب میں ویسٹ کوٹ اچھے کپڑے پہن کر خود کو پاکستان کا سرکاری افسر بتاتا میرے بچے بیوی ساتھ ہو تی ڈرامہ کہ کسی نے ہمیں لوٹ لیا لوگ ترس کھا کہ بڑ ی رقم دیتے وہاں پر بے شمار لٹیرے تھے جو غار حرا کی سیڑھیوں پر مکہ مدینہ کی سڑکوں پر عطر مسواک بیچتے نظر آتے‘ یہ لوگ نسل در نسل کئی عشروں سے یہی کام کر رہے تھے ہم کئی بار اگر پکڑے جاتے تو اگلی بار نیا شناختی کارڈ پاسپورٹ بنا کر پھر چلے جاتے آخری بار پکڑا گیا تو پاکستان بھیج دیا گیا اب میں کئی بار کوشش کر چکا ہوں ویزہ نہیں لگ رہا اُس کی باتیں سن کر میرا جسم تندور کی طرح جھلس رہا تھا اُسے کہا تو بہ کرو دوبارہ کبھی میرے پاس نہ آنا وہ ڈھیٹ تھا لیکن میں نے اُس کی بات نہیں مانی وہ چلا گیا ایک سال بعد میرے دوست کا فون آیا کہ لٹیرے کو سزا مل چکی اُس کا ایکسیڈنٹ ہو اسارا خاندان مر گیا صرف و ہ بچ گیا دونوں ٹانگیں کٹ گئیں ایک آنکھ بھی ختم ایک بازو بھی میں اُس سے ملنے گیا مجھے دیکھتے ہی رونے لگا بابا جی آپ کی بد دعا لگ گئی ہے میں نے توبہ نہیں کی اللہ نے مجھے پکڑ لیا آپ میری داستا ن لوگوں کو بتائیں کہ جولوگ دوسروں کو لوٹتے ہیں ایک دن خدا ئے لازوال اُس کو لوٹ لیتا ہے میں لوگوں کو لوٹ کر انہیں دولت سے محروم کر تا تھا خدا نے مجھے لوٹ کر میرے خاندان بیوی بچوں میری ٹانگوں بازو اور آنکھ کو لوٹ کر مجھے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنادیا ہے جو لوگوں کو لوٹتا ہے خدا پھر اُس کو لوٹ لیتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں