226

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات….تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان

ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب محنت کش کے لئے رزق حلال کے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا چلا جارہا ہے۔ معاشرتی بے حسی کے باعث محنت مزدوری کے دوران محنت کش کو جس سفاکانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتاہے وہ ناقابل بیان ہے۔ محنت کشوں کا ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیت کھلیانوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مشقت کرتاہے جہاں مالکان کی جانب سے ان کے حقوق و سلامتی سے متعلق خیال تو درکنار،بلکہ ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ سرکاری یا پرائیوٹ اداروں، کاروباری مراکز،کارخانوں میں ملازمت کرتا ہے ، سرکاری ادروں کی صورتحال توکچھ بہتر ہے مگر پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اکثر پریشان حال نظر آتے ہیں، جہاں ان سے آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ پندرہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے، جبکہ تنخواہ اس قدر کم دی جاتی ہے کہ ضروریات زندگی کیلئے ناکافی ر ہے، اور وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اورکچھ کمپنیاں تو دو چار ماہ کے بعد تنخواہیںدینا بند کردیتی ہیں جس پر مجبوری میں ملازم بغیر تنخواہ لئے کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ لیبر کورٹ میں بھی اپنا مقدمہ لیکر نہیں جاسکتا ہے کیو نکہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی پروف اور ثبوت نہیں ہوتا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے کہ مزدور کی اجرت ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردی جائے“۔ معاوضے کا نہ ملنا بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ دل دہلانے والی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات غریب مزدور کی عزت نفس بھی مالکان کے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے اتنی مجروح ہوتی ہے کہ وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو مقدم جانتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے 80 سے زائد ممالک میں ہر سال یکم مئی کا دن محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی اور ان کا استحصال بند کیا جائے گا، جبکہ امریکہ اور کینڈا میں مزدوروں کادن ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ یکم مئی 1886ءکو امریکہ کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلے توپرامن جلوس کے شرکاءپر پولیس نے فائرنگ کر کے سینکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا تھا جبکہ درجنوں کو حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، لیکن یہ تحریک ختم ہونے کے بجائے دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی جو آج بھی جاری ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی،ملک کے مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو تیز کرنے، مہنگائی وبے روزگاری کے خاتمے، قومی اداروں کی نجکاری کے خاتمے، مزدور دشمن قوانین کی منسوخی، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے، تنخواہوں و اجرت میں اضافے سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز 1973 ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کے حقوق کیلئے انقلابی لیبر پالیسی نافذ کی جس کے مطابق مزدوروں کو روزگار کا تحفظ دیا گیا او ر انہیں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ان کے دور حکومت سے ہی پاکستان میں یکم مئی کو سرکاری تعطیل قرار دیاگیا، اس دن تمام سرکاری و غیر سرکا ری ادارے اور بنک بند رہتے ہیں۔
بے شک محنت کش اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اسکے ہاتھ کھردرے اور سخت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ محنت اور مشقت کرتے ہو اس شخص نے بتایا کہ پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر روزی کماتا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے۔ یکم مئی کے دن دنیا بھر کا دانشور طبقہ مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کرتا ہے، لیکن صد افسوس کہ ان مزدوروں کو اس دن کی اہمیت کی خبر ہی نہیں ہو تی، اور تقریبا ً90 فیصد مزدور اس بات سے بالکل ناواقف رہتے ہیں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی ہے جو ان کیلئے خاص ہے، ان کیلئے خوشیاں منانے کا موقع ہے، چھٹی کرکے بال بچوں کے ساتھ گزارنے کا دن ہے ، جسے دنیا بھر میں ” مزدوروں کے عالمی دن “ کے طور پر منایا جاتاہے۔ لیکن ایک عام مزدور جو صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے، صبح مزدوری کرتا ہے تو رات کو اس کا چولہا جلتا ہے، اور کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ ادارے میں چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے۔ یوم مزدور بھی اس کے لئے محض فاقہ کا ہی دن ہوتاہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مزدوروں کی مجبوری کو ان اشعار میں خوب بیان کیا ہے۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
بدقسمتی سے پاکستان میں مزدور رہنماﺅں کی جانب سے مزدور تحریک کو منظم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے، اس وجہ سے مزدور تحریک ہمیشہ سے کمزور رہی ہے ۔ بلاشبہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے مزدور ایک ایسی طاقت اور قوت ہیں کہ اگر متحد اور منظم ہوجائیں تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا“۔ حکومت کو چاہئے کہ مزدور وں کے مسائل کو حل کرتے ہوئے ان کے حالات زندگی میں بہتری کے لئے اقدامات کرے، اور ان کی اجرت و تنخواہوں میں مناسب اضافہ کیاجائے۔
٭….٭….٭
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں