280

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔ عبداللہ استاد۔۔۔۔محمد جاوید حیات

چھٹی کلاس میں داخلہ لیا ۔۔توگاﺅں کے پرائمری سکول سے آیا تھا ۔۔ہائی سکول کا عجیب اجنبی ماحول۔۔ایک سے زیادہ اساتذہ ۔۔دو سے زیادہ کمرے ۔ہر کمرے میں بچے ۔صبح کی اسمبلی ۔۔بڑا سا گراﺅنڈ ۔ہیڈ ماسٹر ۔۔کلاس فور چچا ۔ڈرل کا استاد ۔حساب کااستاد ۔۔سائنس کا استاد ۔۔سہم سا ایک بچہ ۔ماحول آہستہ آہستہ مانوس ہوتا جاتا ہے یہ دنیا کا دستور ہے ۔ایک استاد میانہ قد کے ۔۔مستعد ۔ہنس مکھ ۔چھوٹی چمکتی آنکھیں ،چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی ۔۔ہنسے تو قہقہا لگائے ۔تیز طرار ۔کھیلوں کابے تاج بادشاہ۔ستواں ناک،چمکتی پیشانی ،گنگریالے بال ۔سفید دانت ،کشادہ سینہ ،آواز میں لوچ،حلاوت ،بلاکی شیرینی ۔یہ تھے عبد اللہ استاد ۔جو احترام کی حد سے بھی آگے کچھ تھے ۔عبد اللہ استاد ہماری آنکھوں کا تارہ تھے ۔اس کی دلکش شخصیت آنکھوں کو بھا جاتی اور دل میں گھر کر لیتی ۔۔عبد اللہ استاد انگریزی پڑھاتے اور ایسے پڑھاتے کہ پڑھنے والا عش عش کراٹھتا ۔عبد اللہ استاد کی گھنی موچیں تھیں اوریہ چہرے پہ ایسی بھاتیں کہ دیکھنے والے کی آنکھوں میں خود بخود تصویر بنتی ۔عبد اللہ استاد کو سب اسی نام سے پکارتے ۔اور یہ نام ان پہ ایسا ججتا کہ آج بھی میں عبد اللہ استاد کہتے ہوئے اپنے نقط کو اپنی زبان پہ بوسہ دیتے ہوئے محسوس کرتا ہوں ۔عبد اللہ استاد نے بہت پڑھا تھا ۔انگریزی ،اردو، فارسی پر عبور تھا ۔ادب ،مذہب ،سوشل سائنسز،نیچر ل سائنسز،تاریخ جغرافیہ سب سے شغف تھا ۔۔ دوسرے اساتذہ ان کا بہت احترام کرتے یہ ان سب کی علمی تشنگی بجھاتے ۔اس لئے عبداللہ استاد ایک حوالہ تھے ۔عبد اللہ استاد نے میٹرک تک چترال سے اور آگے پشاور سے تعلیم حاصل کی تھی۔گھر موڑکھو کے خوبصورت گاﺅں ویمژد میں تھا ۔عبد اللہ استاد سراپاپیار تھا ۔ہاتھ میں کبھی ڈنڈا نہ ہوتا حالانکہ اس زمانے میں جسمانی سزا دینا ہراستاد کا خاصہ تھا ۔عبد اللہ استاد بڑے ترت پھرت ے زندگی گزارتے ۔۔شمع انجمن تھے ۔۔سراپا انجمن تھے ۔۔جب آپ سکول میں حاضر ہوتے تو لگتا کہ سارے اساتذہ حاضر ہیں اگر کبھی سکول نہ آتے تو سکول خالی خالی لگتا ۔عبد اللہ استاد بڑی کلاسوں کو پڑھاتے ۔۔اگر کبھی ہماری کلاس میں آتے تو ہم سراپاگوش بن جاتے ۔اور اس کی سحر انگیزی میں ڈوب سے جاتے ۔عبد اللہ استاد کو اپنے طلبا ءسے مثالی محبت تھی ۔اس وجہ سے انھوں نے ان کے دلوں میں اپنا مقام بنا لیا تھا ۔وہ وقت کے سخت پابند تھے اپنی کلاس کبھی خالی نہ چھوڑتے ۔وہ مستقبل بین تھے طلباءکی ڈھارس بندھاتے ۔ان کومحنت ،جرات ،صبر کی تلقین کرتے اور ان سے کہتے کہ ان کا مستقبل روشن ہے ۔عبد اللہ استاد ایک احساس کا نام تھا ایک خوشگوار احساس جو دلوں میں سرایت کر جاتا ۔عبد اللہ استاد بڑے خوش لباس تھے ہم آپ کی جامہ زیبی دیکھ کر ٹھٹھر جاتے ۔اس کی شخصیت سے حسن ٹپکتا ۔ان میں ملاحت تھی کہ دل پہ اثر کرتی ۔ہم سب عبد اللہ استاد سے پیارکرتے اور اس کے احترام میں مبہوت سے رہتے ۔عبد اللہ استاد کا پڑھایا ہوا ہر ہر لفظ یاد رہتا ۔ان کی ذات میں ایک مکمل معلم چھپاہوا تھا ۔عبد اللہ استاد ایک کرشماتی شخصیت تھے ۔وہ اجنبی محفلوں میں اجنبی نہ رہتا ۔۔لگتا کہ ہم نے کہیں اسے دیکھا ہے ۔عبد اللہ استاد ستاروںکی جھرمٹ میں چاند تھے ۔ان کی فطرت میں شرافت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ۔ان کے لہجے میں فصاحت و بلاغت تھی ۔وہ پیچیدہ نکتے ایسے سمجھاتے کہ الجھنیں ختم ہو جاتیں ۔عبد اللہ استاد محکمہ تعلیم میں بڑے بڑے عہدوں میں رہے اور اپنی قابلیت کا لوہا منوائے ۔وہ دفتر میں اے ڈی او ایس ڈی او اور ڈی ڈی او کے عہدوں پر فائز رہے اور محکمہ تعلیم کو ایک فعال آفیسر کی خدمات دے دی ۔انھوں نے اپنا آبائی گاﺅں چھوڑ کر دروش میں سکونت اختیار کی اور ایک اعلی پراﺅیٹ تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ دروش حرا پبلک سکول اور کالج ایک معتبرتعلیمی ادارہ ہے جو کئی سالوں سے تعلیم کے میدان میں بہترین خدمات انجام دے رہاہے ۔۔عبد اللہ استاد ایک اعلی منتظم رہے ہیں ۔انھوں نے کبھی بھی اصولوں پہ سودہ نہیں کیا ۔زندگی شان ،توکل اور سادگی سے گزارتے ہیں ۔قران و حدیث کا وسیع مطالعہ ہے ۔تاریخ اسلام سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہے ۔لمحہ لمحہ اللہ کی یاد میں گزرتا ہے ۔دل کے کھلے ہیں غریبوںکے مونس ہیں۔وسیع دستر خوان ہے ۔فیاض ہیں ۔ایثار و قربانی کے مرقع ہیں ۔صابر و شاکرہیں پیارے بیٹے کی المناک موت نے ہلکان نہیں کیا ۔اس بڑی آزمائش میں ڈٹے رہے اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔جس خوش بخت کو اللہ کا قرب حاصل ہو وہ آزمائشوں سے دھرانا گزرتا ہے ۔عبد اللہ استاد میری یادوں کی دنیا کے وہ شاہنشاہ ہیں جوخوابوں کے شہزادے کی طرح میرے خوابوں میں رہتے ہیں اللہ ان کاسایہ ہمیشہ ہم پہ رکھے ۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں