280

داد بیداد۔۔۔۔ پرائیویٹ سکولوں کا مستقبل۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

خیبر پختونخوا ہ کے وزیراعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ ہو اہے کہ پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ اتھارٹی(PSRA) کو مزید اختیارات دید یے جائینگے اور پرائیویٹ سکولوں کو ایک ضابطے کا پابند بنا کر عدالتی فیصلے کی روشنی میں چھٹیوں کی فیس اور دیگر معاملات پر اتھارٹی کو ہر قسم کے اقدامات کی اجازت دی جائیگی خبر میں بتا یا گیا ہے کہ اجلاس میں پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کے والدین نے خصوصی طور پر شرکت کی خبر کو پڑھ کر یا سن کر ایساتاثر ابھر تا ہے کہ بحرین، کالام، سیر سینئی ، چترال، دیر، لکی مروت، بٹگرام، کوہاٹ، شانگلہ اورڈی آئی خان کے دور دراز دیہات میں 250 روپے یا1650 ماہانہ فیس لیکر تعلیم دینے والے سکول کسی ضابطے کے پابند نہیں تھے اپنی من مانی کر رہے تھے اب وہ قانون کے مطابق کام کرینگے یا انہیں پابند کیا جائے گا خبر سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ مذکورہ مقامات کے پرائیویٹ سکولوں کے خلاف عدالت نے کوئی بڑا فیصلہ دیا ہے جس پر عملد رآمد نہیں ہوا حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں صو بے کے تمام پرائیویٹ سکولز محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے ساتھ مڈل تک اور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجو کیشن کیساتھ ایف اے/ ایف ایس سی تک رجسٹر ڈ ہیں جن سکولوں میں ڈگری کلاسیں شروع ہو تی ہیں وہ ہا ئیر ایجو کیشن ریگو لیٹر ی اتھارٹی (HERA) کے ساتھ رجسٹر یشن کر تی ہیں اور یونیورسٹی کے ساتھ ان کا باقاعد ہ الحاق ہو تا ہے ان سکولوں میں ماہا نہ فیس 250 روپے سے شروع ہو کر ڈگری کلاسوں تک پہنچتے پہنچتے 1650 روپے کی آخر ی حد کو چھو لیتی ہے اب یہ بات معلو م نہیں کہ اجلاس میں کن بچوں ے والدین کی نما ئندگی ہو ئی اور وہ کتنے فیس سے تنگ آگئے تھے؟ جہاں تک عدالتی فیصلے کا تعلق ہے عدالتی فیصلے میں باقاعد ہ تخصیص کی گئی ہے اور حد رکھی گئی ہے عدالت نے قر ار دیا ہے کہ جن پرا ئیویٹ سکولوں میں ما ہا نہ ٹیو شن فیس 5000 روپے سے زیادہ ہے وہ ما ہا نہ فیس 20 فی صد کم کر ینگے چھٹیوں کی آدھی فیس واپس کرینگے اور پیشگی فیس لینے سے احتراز کرینگے اجلاس کی رو داد میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی اس لئے بے چینی پھیلتی ہے حکومت کا کام عوامی بے چینی، بے یقینی اور اضطراب پیدا کرنا نہیں اور جو لوگ حکومت کو ایسے مشورے دے رہے ہیں وہ حکومت کے خیر خواہ نہیں ہیں ان اقدامات سے تمام پرائیویٹ سکولوں کامستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے تصویر کا دوسرا رخ بڑا واضح اور صاف ہے وطن عزیزمیں پرائیوٹ سکولوں کی فیسیں 6ہزار ماہانہ سے ایک لاکھ 20ہزار تک مقرر کی گئی ہیں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے والے ان بچوں کے والدین تھے جو ایک لاکھ 20ہزار ماہانہ فیس دیتے ہیں اس لئے عدالت نے پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے اندر تعلیم کے فروغ میں حکومت کی مدد کرنے والے سکولوں کو اپنے حکم میں اسشنادیا اور5ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ فیس لینے والے پرائیوٹ سکولوں کابا قاعدہ نام لیکر حکم جاری کیا عدالتی فیصلہ اخبارات میں بھی درست طریقے سے شائع ہوا کہ اس کا اطلاق 5ہزار روپے یا اس سے کم فیس ماہانہ لینے والے پرائیوٹ سکولوں پر نہیں ہوگا پرائیوٹ سکولوں کی فیسوں کا سروے ہر سال ہوتا ہے پرائیوٹ سکولز ریگیولیٹری اتھارٹی نے بھی جون 2018ء میں ایک جامع سروے کیا ہے سروے کے بعد پرائیوٹ سکولوں کی الگ الگ درجہ بندی کی گئی اور مقررہ ماہانہ فیسوں کے لحاظ سے ہر سکول کے لئے رجسٹریشن اور تجدید کی فیسیں مقرر کی گئیں درجہ بندی میں ایک سے لیکر 20تک مختلف درجے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں متعلقہ حکام درجہ بندی کی تفصیلات کو چھپاتے کیوں ہیں؟ اگر ان تفصیلات کو نہ چھپاتے تو یقینی طور پر اجلاس کی کاروائی میں اس کا ذکر ہوتا کہ 5ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ فیس لینے والے پرائیوٹ سکولوں کے حوالے ے اس طرح کے فیصلے کے گئے جیساکہ عدالتی فیصلے میں اس کا باقاعدہ ذکر آیا ہے کوئی ابہام یا کنفیوژن نہیں ہے شانگلہ، سوات یا چترال اور دیرمیں پرائیوٹ سکول کھولنے والا پاکستا نی شہری چار طریقوں سے حکومت اور عوام کی مدد کررہا ہے پہلی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے لئے اور علاقے کے چند بے روزگار نوجوانوں کے لئے روزگار پیدا کیا ہے وہ حکومت پر بوجھ نہیں بنا دوسری بات یہ ہے کہ اس نے سرکاری سکولوں پر طلبہ اور طالبات کے رش میں کمی کی ہے سرکاری سکولوں کا بوجھ ہلکا کر لیا ہے تیسری بات یہ ہے کہ اس نے گاؤں میں سکول کھول کر شہروں کی طرف طلباء اور طالبات کی منتقلی، مائیگریشن میں خاطر خواہ کمی کی ہے اور چوتھی بات یہ ہے کہ اس نے گاؤں کی سطح پر عوام کیلئے بچوں کی معیاری تعلیم کا ایک قابل عمل متبادل نظام دیاہے جس کے فارغ التحصیل بچے اور بچیا ں آگے جاکر ملک کے معیاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے کے قابل ہوتی ہیں یہ چاروں کام اگر معمولی فیس پر ہوتے ہیں 250روپے ماہانہ سے لیکر 1650/-روپے ماہانہ تک کی فیس میں اگر والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے لئے پرائیوٹ سکولوں کا انتخاب کرتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کیا برائی ہے؟ ایسے سکولوں کا میڈیا ٹرائل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے سکولوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟ ماضی کی حکومتوں نے پرائیوٹ سیکٹر کو تعلیمی میدان میں ترغیبات سے نوازا، آسان شرائط پر تعمیراتی کاموں کے لئے قرضے بھی فراہم کئے اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں، کابینہ کی میٹنگوں اور اسمبلی کی قانون سازی میں پرائیوٹ سکولوں کی درجہ بندی کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں 5فیصد سکولوں کے حوالے سے آنے والے عدالتی فیصلوں کو بلا تخصیص 95فیصد سکولوں پر نہ تھوپا جائے اس قسم کے میہم اقدامات سے بے چینی پھیلتی ہے اور ابے چینی کسی کے مفاد میں نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں