196

صد ابصحرا۔۔۔۔ہسپتالوں کی خو دمختاری یا نجکاری۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خیبر پختونخوا کے ساتھ پنجاب میں بھی ہسپتالوں کی خود مختاری وجہ نزاع ہے ڈاکٹر وں میں بے چینی پا ئی جاتی ہے مریضوں کا بُرا حال ہے حکومت کہتی ہے کہ ہماری عملداری یعنی رٹ (writ)قائم رہے گی پشاور میں ڈاکٹروں کی ہڑ تال پر حکومت نے یہ مو قف دہرایا ہے کہ ہم نے ڈاکٹروں کو دیہی علا قوں کے مر اکز صحت، بیسک ہیلتھ یو نٹ اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تبدیل کیا اس لئے ڈاکٹر خوش نہیں ہیں حا لانکہ جن اضلاع سے ان کا ڈو میسائل ہے وہاں ڈیو ٹی انجام دینا ان کی ذمہ داری بھی ہے اخلا قی فریضہ بھی ہے تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دیہی علا قوں میں تبدیلی کے ساتھ ڈاکٹروں میں بے چینی پھیلنے کا تعلق ہی نہیں ہے جو ڈاکٹر کسی شہر کے ہسپتال سے گاؤں کے ہسپتال میں تبدیل ہو تا ہے اُس کا تعلق محکمہ صحت کے ماتحت ہسپتال سے ہے اُن ڈاکٹر وں کی کل تعداد 600کے لگ بھگ ہے اُن میں سے تبدیلی ہو نے والے 200 کے قریب ہیں انہوں نے تیسرے دن ہڑ تال میں شمو لیت اختیار کی جن ڈاکٹروں کو مارا پیٹا گیا وہ تدریسی ہسپتالوں کے ڈاکٹر تھے جس ڈاکٹر کے زخموں کی میڈیکل رپورٹ پر پو لیس سٹیشنوں میں ملز موں کے خلا ف پر چہ کاٹنے اورایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا گیا اس کا نام ڈاکٹر ضیاء الدین آفریدی ہے اور وہ تدریسی ہسپتال میں گریڈ 19کا اسسٹنٹ پر و فیسر ہے تد ریسی ہسپتا لوں کے متا ثر ہ ڈاکٹروں کی تعداد 13000سے اوپر ہے اور ہڑ تال انہوں نے شروع کی ہے ہڑ تال کی وجہ تین قوا نین کا نفاذ ہے پہلا قانون بورڈ آف گور نر ز (BOG) ہے دوسرا قانون ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی (DHA)ہے اور تیسرا قانون رورل ہیلتھ اتھارٹی (RHA) ہے ان قوانین کے تحت ہسپتا لوں کو خود مختاری دینے کے بہا نے نجی ملکیت میں دیا جا رہا ہے اگلے 5سالوں میں سر کار کوئی ہسپتال نہیں چلا ئیگی ایک دفعہ گرانٹ دیکر بے فکر ہو جا ئیگی ہسپتال اپنے اخرا جا ت اور آمدن کے خود ذمہ دار ہو نگے ایک اعلیٰ شخصیت کے ما مو ں زاد بھا ئی نو شیر واں بر کی نے امریکہ میں بیٹھ کر 2014ء میں اس تجربے کا آغاز کیا اور شروع میں اس کو میڈ یکل ٹیچنگ انسٹی ٹیو شنز (MTI) تک محد ود رکھا پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے اور سب سے قدیمی درس گا ہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال (LRH) کا برا حشر کیا ڈاکٹر وں کی درخواست پر عدا لت عظمیٰ نے آڈٹ کرانے کا حکم دیا تو آڈٹ رپورٹ کو خفیہ رکھ کر من ما نی جاری رکھی گئی یہاں تک کہ ہسپتال میں امراض قلب کا شعبہ ہی بند کرا نا پڑ ا نیز سینئر ڈاکٹروں نے کام چھوڑ کر بیرون ملک جا نے کو تر جیح دی بظاہر یہ خوب صورت نا م ہے ہسپتالوں کی خود مختاری میں کیا برائی ہے؟ مگر حقیقت میں خود مختاری کے نا م ہسپتال کو ایک کارو باری شخصیت کے رحم و کرم چھوڑدیا جا تا ہے وہ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی اور رورل ہیلتھ اتھارٹی کا چیئر مین ہو تا ہے ہسپتال اُس کی جا گیر ہو تی ہے وہ پیشہ طب اور مسیحا ئی سے زیا دہ اس بات کا ما ہر ہوتا ہے کہ ہسپتال کی آمدنی کس طرح بڑھائی جائے؟ وہ سینئر ڈاکٹروں کی جگہ جو نیر ڈاکٹروں کو ذاتی پسند کی بناء پر بڑے عہدوں پر لگا تا ہے ہسپتال کے نظم نسق میں میرٹ اور شفا فیت کی جگہ اقرباء پروری کا مظا ہر ہ کرتا ہے سینیارٹی اور تجربے کو ٹھکرا کر من پسند اور خو شامدی ٹو لے کو آگے لیکر آتا ہے یہ وہ لوگ ہو تے ہیں جنکو امریکہ میں بلیو آئیڈ (Blue eyed)کہا جاتاہے اگر یہ تجربہ ڈسٹرک ہیڈ کوار ٹر ہسپتال اور دیہی مرا کز صحت میں رائج کیا گیا تو محکمہ صحت کے اندر علا ج معا لجے کا پورا نظام زیرو ز بر ہو جا ئے گا اور صو بے کے سر کاری ہسپتال نجی ملکیت میں چلے جائینگے ڈاکٹروں کا سروس سٹرکچر ختم ہو جائے گا اور مریضوں کے لئے مفت علا ج معا لجے کی سہو لت ختم ہو جائیگی ڈاکٹر نو شیرواں بر کی سندھ کے سائیں قائم علی شاہ کی عمر کے ہیں بلڈ پریشر اور ہائی پرٹینش کے مریض ہیں امریکہ کے معزز شہری ہیں خیبر پختونخوا یا پنجاب اور پاکستان کے ہسپتالوں میں اُن کی واحد دلچسپی یہ ہے کہ اعظم سواتی اور چوہد ری سرور کی طرح پیسہ ہا تھ آجائے مال بنا نے کا مزید موقع ملے اگر امریکہ سے ہی کسی کو بلانا تھا تو امریکہ میں ایسے پاکستانی ڈاکٹر وں کی کمی نہیں جن کی صحت بھی اچھی ہے اور شہرت بھی اچھی ہے ڈاکٹر الف خان سب کے استاد ہیں ڈاکٹر نسیم اشرف بھی ہیں ڈاکٹر سید امجد حسین ہیں اس طرح کئی نام اور بھی ہیں ڈاکٹر وں کی تحریک اور ان کااحتجاج اس لئے نہیں کہ وہ مریضوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ان کا احتجاج اس لئے ہے کہ وہ سات سمندر پار سے آکر مریضوں اور غریبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ما ل بنا نے والوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں جھگڑا صر ف اسی بات پر ہوا جس کو حکومت نے انا کا مسئلہ بنا دیا جنوری 2009 ء میں ایک دانش ور نے تجز یہ کیا تھا کہ ہمارا سیا سی نظام بہت زیادہ خراب ہو چکا ہے میٹرک اور ایف ایس سی میں سب سے زیادہ نمبر لینے والا طالب علم ڈاکٹر یا انجینئر بنتا ہے مگر اس کی قسمت کا فیصلہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے جو پیشہ ورانہ تجر بہ، لیاقت اور قابلیت کے لحاظ سے اس کے معیار سے بہت کم درجے پر ہو تے ہیں ڈاکٹر وں کی موجو دہ جد و جہد مریضوں کے حقوق کی جد و جہد ہے انکے مطالبات کا خلا صہ یہ ہے کہ شہریوں کو علا ج معالجے کی مفت سہولت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ہم ہسپتالوں کی نجکا ری کے عمل کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کر تے اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے حکومت میں چاہیے تو مسئلے کو حل کر سکتی ہے نہ چاہیے تو مسئلہ جوں کا تو ں رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں