314

چترال میں صحت کے مسائل اور ہمارا لائف اسٹائل۔۔۔۔۔طارق اقبال

چند سال پہلے تک ہارٹ اٹیک، شوگر، ہائی بلڈ پریشر، امراض معدہ،سرطان، ہیپاٹائٹس اور ڈیپریشن جیسی بیماریاں چترال میں اتنی عام نہیں تھی جتنی عام آج ہو چکی ہیں۔سال میں کوئی ایک یا دو ایسے واقعات رونما ہوتے تھے۔لیکن آجکل زیادہ تر نوجوان ان بیماریوں کا شکار ہوکر وفات پا جاتے ہیں۔موت برحق ہے اس پر ہمارا ایمان ہے لیکن چند اختیاطی تدابیر اور لائف اسٹائل تبدیل کرکے ان بیماریوں سے نجات پایا جا سکتا ہے
آج سے چند سال پہلے تک چترال میں فارمی مرعی، فارمی انڈے، کولڈ ڈرنکس، خامیرہ، چپس وغیرہ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔مرد گھنٹوں کام کرتے تھے میلوں پیدل چلتے تھا سادہ خوراک کھاتے تھے اور موبائل اور انٹرنیٹ کی پریشانیوں سے دور رہتے تھے آپس میں گھل ملتے تھے گپ شپ قہقہے اور ہنسی مزاق میں زندگی گزارتے تھے-خواتین گھروں میں مرعی، بکری گائے وعیرہ پالتی تھیں تازہ گوشت تازہ دودھ تازہ روٹی اور تازہ سبزی کا سالن بناتی تھیں۔کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور فٹ رہتی تھیں
لیکن پھر ہم جدید ہوگئے۔چمبروع، تروپ چائے اور لسی کی جگہ پیپسی سیون اپ مرنڈہ بگ ایپل وغیرہ نے لے لی،تازہ دیسی مرعی کی جگہ برائیڈل مرعی، گائے کے دودھ کی جگہ ملک پیک، جستہ روٹی کی جگہ خامیرہ سے بنا ہوا پھلکہ، دیسی سبزی (برون، کھار شاخو) کی جگہ اسپگیٹی، دیسی چاول کی جگہ ڈگرہ، کدو کی جگہ نوڈلز، دیسی مسالحے کی جگہ چائینیز سالٹ، دیسی انڈے کی جگہ فارمی انڈے، دیسی گھی کی جگہ بٹر وغیرہ نے لے لی۔بچے خوبانی کی جگہ، چپس، توت کی جگہ بسکوٹ، اور پانی کی جگہ اسپرائٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔مائیں بچوں کو دودھ پلانے کی جگہ نیڈو، کھانا کھلانے کی جگہ سیریلک اور کڑی (ڈاوڈاو) کھلانے کی جگہ نوڈلز کھلاتے ہیں۔پیدل کا زمانا گیا۔محنت کا زمانا گیا، کھیتوں میں جاکر کام کرنے کا زمانہ گیا اب دیسی کھاد کی جگہ ڈی اے پی اور یورایا نے لے لی ہے۔گاوں کے کسی کونے میں بیٹھ کر گپ شپ اور قہقہوں کا زمانہ گیا۔آپس میں مل بیٹھنے کے زمانہ گیا۔خواتین صرف بازاری چکن شوق سے بھونتی ہیں، اسپگیٹی، میکرونی، نوڈلز بڑے شوق سے پکاتی نظر آتی ہیں۔علمندی، کھیر، کڑی، کھچڑی، شولہ، لاڑیک، مول، شوشپ، چمبوروع، تروپ چائے وعیرہ بنانا اپنی شان کے خلاف اور قدامت پسندی کی علامت سمجھتی ہیں۔کھیتوں میں تازہ سبزی اگانا قدامت پسندی، مال مویشی پالنا عار، دستکاری کرنا جدت کے تقاضوں کے خلاف سمجھتی ہیں۔آج ہاتھ سے بنا ہوا چوعہ، بنیان، واسکٹ، جرابیں اور مفلر وعیرہ ناپید ہوچکے ہیں۔آج خواتین دستکاری کی جگہ موبائل پر گیم کھیلتی ہیں۔ سبزی اگانے کی جگہ ٹی وی دیکھتی ہیں سردیوں میں شوشپ کی جگہ تیار کھیر، سیویان اور کسٹرڈ بنائے جاتے ہیں۔گرمیوں میں چمبوروع کی جگہ کولڈ ڈرنکس کو جدت کی علامت اور ترقی کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔عرض ہم نے ہر لحاظ سے اپنا لائف اسٹائل تبدیل کر دیا ہے جو ہمارے علاقے کے موسمیاتی حالات اور دشواری کے مطابق ہماری باڈی کی ضروریات کو پوری نہیں کرپاتی۔جو کام دیسی گھی کر سکتا ہے وہ کام دیر کے کسی فیکٹری سے مینیوفکچرڈ گھی نہیں کرپاتا۔جو کام چمبروع کرتا ہے وہ کام کولڈ درنکس نہیں کر پاتے۔اسی طرح جتنی طاقت تازہ خستہ روٹی میں ہے وہ کام خامیرہ سے تیار کردہ روٹی نہیں کر پاتا۔اسلئے جب باڈی کے اندر مختلف پارٹس کو وہ ضروری وٹامن نہیں مل پاتے جو چاہئے ہوتے ہیں۔توہم مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ آجکل نظر آرہے ہیں
ایک مشین کو اگر ایک سال تک ساکن رکھا جائے تو اس کے سارے پرزے زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور آخر کار ایک ایک کرکے بے کار ہو جاتے ہیں اور ناکارہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں انسانی جسم کی مثال بھی اس گاڑی کی ہے۔جتنا حرکت میں رہے گا اتنا ایکٹیو رہے گا اور جتنا ساکت رہے گا اتنا اسکے پرزے زنگ الود ہوتے رہیں گے اور آخر کار ایک ایک کرکے ناکارہ ہوتے جائیں گے آج اگر ہم دیسی مرعی، دیسی گھی، دیسی سبزی، وعیرہ کو ترجیح دیں تھوڑے ٹھوڑے فاصلوں پر پیدل چلنے کو ترجیح دیں تو بہت سارے صحت کے مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں یہ سارے کام کرنے کے لئے تھوڑی سی محنت تھوڑی مشقت اور تھوڑے سے پیسے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں